• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انگریزی کا مقولہ ہے دولت کھو جائے تو یوں سمجھیں کچھ نہیں کھویا، صحت چلی جائے تو جان لیں آدھی متاع چھن گئی اور خدانخواستہ عزت سے ہاتھ دھونا پڑجائے تو کھونے کے آزار اور پانے کے خمار سے آزاد ہوجائیں کہ اب آپ کے پاس کچھ رہاہی نہیں۔ میں اپنے مجبور ومقہور اور لاچار و بے بس ہم وطنوں کو جینے کے ہاتھوں گھٹ گھٹ کر مرتے اور ایڑیاں رگڑتے دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں آتی دولت ، صحت اور عزت کی درجہ بندی میں انہیں کہاں شمار کروں؟ ان بے زر انسانوں سے تندرستی کی دولت چھن جائے تو رہی سہی عزت نفس بھی خاک میں مل جاتی ہے اور مہنگا علاج کرانے کیلئے زندگی کی بھیگ مانگنا پڑتی ہے۔ مخیر حضرات ، فلاحی تنظیموں اور رفاحی اداروں نے ضرورت مندوں کے علاج کیلئے بیشمار ڈسپنسریاں اور اسپتال کھول رکھے ہیں۔ جہاں غریبوں کے مفت علاج کا دعویٰ کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ خیرات لینے کیلئے خودی گنوا کر جھولی پھیلانا پڑتی ہے کاسہٴ گدائی لیکر مفت علاج کی فریاد کرنے والوں کو جس اہانت آمیز عمل سے گزرنا پڑتا ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں۔ مجھے ان قانونی موشگافیوں سے کوئی سروکار نہیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد علاج معالجہ کی فراہمی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے یا وفاقی حکومت کی۔ آگ لگے اس جمہوریت کو جہاں پیزے اور برگر کیلئے تو ہوم ڈیلیوری موجود ہے مگر دم توڑتے مریض کو بچانے کیلئے ایمبولینس دستیاب نہیں۔بھاڑ میں جائے وہ نظام جہاں 100میں سے 19بچے ماں کی کوکھ میں ہی دم توڑ دیتے ہیں اور 3سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے مزید31بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ تف ہے اس معاشرے پر جہاں مسیحائی بھی کمرشل ازم کی دوڑ میں پیش پیش ہے اور جاں بلب مریضوں کو اس وقت تک دوا نہیں دی جاتی جب تک جملہ اخراجات اور فیس جمع نہیں ہو جاتی۔ وہی معالج جو سرکاری اسپتالوں میں نیم حکیم محسوس ہوتے ہیں۔ نجی کلینک پر نہ صرف ان کی قابلیت کے جوہر عیاں ہوجاتے ہیں بلکہ انداز و اطوار بھی بدل جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کیا تمام نجی اسپتالوں کو کسی ضابطے کا پابند کرکے معالجے کے اخراجات کو کم کرنا ممکن ہے؟ کیا حکومت اپنے محدود وسائل میں ہر گاوٴں ، ہر شہر میں جدید اسپتال ، مشینری اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی دستیابی کا خواب پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ ہرگز نہیں تو پھر کیا کیا جائے کہ یہاں زندگی وبال اور پیدائش جرم نہ ہو، بیماری درد ناک موت کی صورت نہ اختیار کرے؟ دنیا بھر کے پالیسی ساز ادارے طویل غور وخوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس طرح فصلوں کی انشورنس ہوتی ہے، گاڑیوں کی انشورنس ہوتی ہے یہاں تک کہ بنک کے لاکرز اور عمارتوں کی انشورنس ہوتی ہے ویسے ہی ہیلتھ انشورنس کا نظام بھی وضع کیا جائے۔بہت سے ممالک میں صحت عامہ کی سہولتوں کیلئے ہیلتھ انشورنس کا نظام وضع کیا گیا ہے مثلاً تین سال پہلے بارک اوباما نے ہیلتھ کیئر کے ایک قانون پر دستخط کئے تھے جس کے مطابق ہر شہری کو ہیلتھ انشورنس کرانے کا پابند کیا گیا تھا اور ہیلتھ انشورنس نہ کرانے والوں کیلئے سخت سزا تجویز کی گئی۔اوباما نے اس مسودہ قانون پر دستخط تو کردیئے مگر اس پر عمل نہ ہوسکا کیونکہ 26/امریکی ریاستوں نے اس مسودہ قانون کیخلاف عدالت سے رجوع کر لیا تاہم امریکی سپریم کورٹ نے اس مسودہ قانون کی توثیق کردی اور اب ہیلتھ انشورنس کے اس منصوبے پر کام جاری ہے۔
امریکہ میں علاج پوری دنیا سے مہنگا ہے طرفہ تماشہ یہ ہے کہ امریکہ ہرسال اپنی جی ڈی پی کا17فیصد ہیلتھ کیئر پر خرچ کرتا ہے جو پوری دنیا میں ریکارڈ ہے کیونکہ کینیڈا جیسا ملک بھی اپنی جی ڈی پی کا 10.9فیصد صحت پر خرچ کرتاہے لیکن 7410ڈالر فی کس خرچ کرنے کے باوجود امریکہ میں علاج بہت مہنگا ہے۔ امریکہ میں ایم آر آئی کرانے پر 1080ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ فرانس میں یہی ٹیسٹ 281ڈالر میں ہوجاتا ہے۔ امریکہ میں Angiogramکرائیں تو 798ڈالر خرچ ہوتے ہیں جبکہ کینیڈا میں یہی ٹیسٹ 35ڈالر میں ہو جاتاہے۔اس قدر خطیر ہیلتھ بجٹ کے باوجود امریکیوں کی اوسط زندگی 78سال تک ہے جبکہ اٹلی میں لوگ اوسطاً 82سال تک جیتے ہیں۔ہمارا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ یا فرانس سے کیا مقابلہ کرنا ہم تو ہیلتھ کیئر کے شعبہ میں بھارت، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ روانڈا جیسے پسماندہ اور مفلوک الحال ملک سے بھی گئے گزرے ہیں۔ انڈیا اپنی جی ڈی پی کا 4.2فیصد ہیلتھ پر خرچ کرتا ہے اور فی شہری کے حساب سے سالانہ خرچہ 132ڈالر ہے۔ روانڈا اپنی جی ڈی پی کا 9 فیصد ہیلتھ کیئر پر خرچ کرتا ہے اور فی کس سالانہ اخراجات 102ڈالر ہیں جبکہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 2.6فیصد ہیلتھ کئیر پر خرچ کرتا ہے اور فی کس اخراجات 63ڈالر ہیں۔ پاکستان میں اوسط عمر 62سے 64سال ہے اور صرف 4.3فیصد لوگ 65سال کے بعد زندہ رہتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں لوگوں کی اوسط عمر ہم سے بہتر ہے(66-64 سال )۔ جس شرح سے مہنگائی ہو رہی ہے اور طبی سہولتیں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ علاج معالجے کے اخراجات میں اضافہ ہورہاہے اس کا حل ہی یہی ہے کہ ہر شخص کی انشورنس ہو کم از کم یہ اطمینان تو ہو کہ کوئی حادثہ ہو گیا ، کوئی بیماری لگ گئی یا کوئی آپریشن کرانا پڑ گیا توکسی سے بھیک نہیں مانگنا پڑے گی۔ لیکن المیہ یہ ہے کی جو لوگ ہیلتھ انشورنس خرید سکتے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے وہ اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے اور جنہیں ہیلتھ انشورنس کی ضرورت ہوتی ہے ان کے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ انشورنس تو ناگزیر ہے لیکن اس کا طر یقہ یہ ہے کہ حکومتیں اپنے شہریوں کو انشورنس کی ضمانت دیں لوگوں کو نجی کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے ہمارے ہاں مختلف سرکا ری و نجی اداروں میں ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کا رحجان موجود ہے لیکن یہ ضمانت حکومت کی طرف سے تمام شہریوں کو حاصل ہونی چاہئے۔اس ضمن میں سوئٹرزلینڈ اور تائیوان کا رول ماڈل موجود ہے۔ سوئٹرزلینڈ اپنی جی ڈی پی کا11 فیصد جبکہ تائیوان 7 فیصد خرچ کرتا ہے اور ان کے شہریوں کو مثالی سہولتیں حاصل ہیں۔تائیوان نے1990ء میں ہیلتھ ریفارنر کا فیصلہ کیا تو تمام پرائیوٹ ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کا کردار ختم کر کے حکومتی اشتراک کیساتھ ایک ہی انشورنس کمپنی متعارف کرائی اور ہر شخص کی ہیلتھ انشورنس لازمی قرار دے دی گئی آج وہاں کا ہیلتھ سسٹم سب سے مثالی تصور کیا جاتا ہے۔میاں نواز شریف نے بھی وزیراعظم بننے کے چند روز بعد ہیلتھ انشورنس کا نظا م لانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اگرچہ یہ کنفیوژن ضرور ہے کی صحت کا محکمہ صوبائی حکومتوں کے سپرد کرنے کے بعد وفاقی حکومت کیسے یہ نظام وضع کرے گی لیکن چاروں صوبوں کی حکومتیں اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کے ساتھ سرجوڑ کر بیٹھیں اور حکومتی خرچے پر ہر شہری کی مفت ہیلتھ انشورنس پر اتفاق کر لیں تو دولت سے محروم عام آدمی کم از کم صحت اور عزت کے ساتھ تو جی سکے گا۔
تازہ ترین