• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آم نمکین نہیں ہوتے ہیں ورنہ نمک حرامی کرنی پڑتی جو مجھے سخت ناپسند ہے کیونکہ میٹھا کھا کر تو ”حرام“ کیا جاسکتا ہے۔ نمک کھا کر حرام کرنا محاورہ کی رو سے انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ صدارتی آم واقعی بہت میٹھے تھے جس کیلئے صدر صاحب کا شکریہ کہ آپ نے یہ ”قدرتی ریوڑیاں“ بانٹتے وقت روایتی اندھے کی طرح صرف اپنوں کو ہی نہیں ہم جیسے غیروں کو بھی یاد رکھا۔ یہاں یہ حقیقت بھی قارئین کے ساتھ شیئر کرنے والی ہے کہ مجھے بچپن سے ہی میٹھا ناپسند ہے بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ میٹھا پسند نہیں ہے خواہ کسی بھی ”شیپ“ اور ”فارم“ میں کیوں نہ ہو۔ انتہاء یہ کہ دودھ کا جو اپنا فطری، ذاتی اور جینوئین سا میٹھا پن ہوتا ہے۔ میرے لیے وہ بھی گوارہ نہیں تھا۔مختصراً یہ کہ سوائے میٹھے لہجے یا میٹھی مسکراہٹ کے کسی بھی قسم کا میٹھا کبھی میرے وارے میں نہیں رہا۔ چیری، لیچی، جامن، فالسہ اور ترش پھل ٹھیک ہیں۔ ہمارے گھر میں چیکو کا پودا ہے جو اس طرح پھل پھینکتا ہے جیسے ٹیوب روز خوشبو کی آندھی چلا دیتے ہیں لیکن میں نے آج تک اسے چکھا تک نہیں۔ ہاں البتہ رمضان المبارک میں کھجور کو ”استثناء“ حاصل ہے۔ یوں بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ صدر زرداری کا ذکر خیر ہو اور استثناء کا حوالہ نہ آئے۔
حاصل کلام یہ رہا کہ آم میرے لیے پھلوں کا بادشاہ ہرگز نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ”سہہ ہزاری“ یا ”پنچ ہزاری“ درباری ہے یعنی مجھے آم کھانے کی تمیز ہی نہیں اور میں مرزا غالب سے سو فیصد متفق ہوں کے گدھے آم نہیں کھاتے۔ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مرزا میری پیدائش سے ایک صدی اوپر پہلے میری نشاندہی فرما گئے لیکن ایسے ”ادبی طعنے“ کے باوجود میں آم کیلئے کوئی خاص ٹیسٹ ڈی ویلپ نہیں کرسکا۔ خاص طور پر پیوندی آموں کیلئے کہ اگر کوئی آم خاص ہے تو دراصل وہ دیسی آم ہے جس میں ”پلپ“ کی جگہ جوس اور میٹھے کے برابر کی ترشی بھی ہوتی ہے۔ پیوندی آموں کو آم کہنا تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی گلبرگ، گارڈن ٹاؤن یا ڈیفنس کو لاہور کہنے پر بضد ہو۔ یہ علاقے ”لاہور“ نہیں، لاہور کے بڑھے ہوئے بال یا اس شہر نگاراں کی ”جدید باضابطہ تجاوزات“ ہیں۔ اصل لاہور تو دروازوں اور فصیلوں کے اندر تھا جو مدتوں سے دم سادھے بے سدھ پڑا ہے۔ لوگ ”ایکسٹینشن“ کو ہی اصل سمجھے جارہے ہیں جیسے آج کل آم کا مطلب ہی پیوندی آم ہے جو اصلی دیسی آم کی ایکسٹینشن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دیسی آم ”خاندانی“ ہے جبکہ یہ سندھڑی، لنگڑے، انوررٹول وغیرہ ”نو دو لتیئے“ ہیں۔ کبھی ان کے درختوں کا موازنہ کر کے تو دیکھو … دیسی آم کا درخت کتنا ”وجیہہ“ عالیشان اور گھنا ہوتا ہے، جتنے چاہو اس پر جھولے ڈال لو جبکہ پیوندی آم کا کم طرف اور کم قد پودا تو ایک آدھ جھولا بھی افورڈ نہیں کرسکتا اور اگر زور زبردستی سے جھولا اس میں ڈال ہی دیا تو جانو ادھر کوئی فردوس یا انجمن جیسے جٹی یا بانکی نار ”بیٹھی“ تو سمجھو جڑوں سمیت پیوندی آم کا پودا اٹھ کھڑا ہوا۔ شاعری بھی پیوندی نہیں دیسی و جنگلی آموں کے حصہ میں ہی آئی ہے مثلاً
”لان میں ایک بھی بیل ایسی نہیں
جو بدیسی پرندے کے پر باندھ لے
جنگلی آم کی جان لیوا مہک
جب بلائے گی واپس چلا جائے گا“
نواب زادہ نصراللہ خان صاحب کے آموں کا بہت سنا لیکن یہ سب ہماری صحافتی ہوش سے پہلے کی باتیں ہیں۔ لیکن ہوتے بھی تو کیا ہوتا؟ … سیاسی اشرافیہ کے ساتھ ہم جیسوں کے تعلقات میٹھے نہیں کڑوے، کسیلے یا کھارے قسم کے ہوتے ہیں۔ ہم جیسوں کے نام نہ ان کی چیک بکس میں ہوتے ہیں نہ گڈ بکس میں لیکن زرداری صاحب نے وضعداری کا ثبوت دیا۔
اور بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ذکر آم کا ہو اور اقبال یاد نہ آئیں کہ آپ بھی مرزا غالب کی طرح آموں کے عاشق تھے اور الہ آبادی صاحب کی طرف سے لنگڑے آم وصول ہونے پر شعر کی شکل میں شکریہ ارشاد فرمایا کہ ”لنگڑا“ ہونے کے باوجود لاہور تک پہنچ گیا۔ علامہ صاحب کو ڈاکٹر نے آم سے پرہیز کا مشورہ دیا لیکن پھر ان کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک آدھ آم کھانے کی اجازت دیدی۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب اچانک ٹپکے آم کی طرح جا ٹپکے تو دیکھا علامہ ایک کنگ سائز آم کے ساتھ دنگل میں مصروف ہیں۔ ڈاکٹر کے اعتراض پر بولے۔
”آپ نے ایک آم کھانے کی اجازت دی تھی، سائز کا تعین نہ کیا تھا“
واقعی بڑے لوگوں میں بھولپن بھی بڑا ہی ہوتا ہے اور جن کے اندر بچہ موجود نہ ہو وہ بڑے ہو ہی نہیں سکتے۔
بات چلی تھی یہاں سے کہ شکر ہے آم نمکین نہیں ہوتے ورنہ کھا کر نمک حلالی کا ثبوت دینا پڑتا لیکن یہ بھی ہم جیسوں کا مسئلہ ہے۔ اہل سیاست کی صحت پر میٹھے نمکین سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو اور جہاں تک تعلق ہے نمکین کا تو پرویز مشرف کی ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر ن لیگ کے دستر خوان تک کان نمک میں سب نمک ہیں۔
آخر پر ”کٹوتی حکومت“ کی طرف سے عوام کے زخموں پر سپرے کئے جانے والے نمک کی چند جھلکیاں۔ پاکستان کو نمک کی کان بنا کر عوام کی کھالیں اتارنے کے بعد اس میں دھکیل دیا گیا ہے جس کی چند جھلکیاں پیش خدمت ہیں۔
معاشی دھماکہ نمبر 1: بنک سے رقم نکلوانے پر 0.3 فیصد کٹوتی۔
معاشی دھماکہ نمبر 2: بنک اکاؤنٹس سے زکواة کے علاوہ آئی ایس پی کی 0.5 فیصد کٹوتی۔
معاشی دھماکہ نمبر 3:5 مرلہ کی عظیم الشان جائیداد پر ٹیکس کٹوتی۔
معاشی دھماکہ نمبر 4: انکم ٹیکس کے علاوہود ہولڈنگ کٹوتی۔
معاشی دھماکہ نمبر 5: 300 یونٹ سے زیادہ بجلی استعمال پر سبسڈی کی کٹوتی۔معاشی دھماکہ نمبر 6: موبائل فون صارفین 100 کے کارڈ پر 41.50 روپے ٹیکس دیں گے پھر کٹوتی۔معاشی دھماکہ نمبر 7: پٹرول 2 ، ڈیزل 2.16، مٹی تیل 2.50 روپے فی لٹر مزید مہنگا، CNG کی قیمت میں 1.85 روپے فی کلو اضافہ۔معاشی دھماکہ نمبر 8: حکومت IMF کی آنکھوں میں آنکھیں نہیں بانہوں میں بانہیں ڈال کر بیل آؤٹ پیکج کیلئے مزید 8 شرائط پر اتفاق پر غور کرے گی، زرمبادلہ ذخائر میں 6 ارب کی کمی۔معاشی دھماکہ نمبر 9: GST میں ایک نہیں 3 فیصد اضافہ یعنی کٹوتی در کٹوتی ۔”چین ری ایکشن“ کیلئے تیار رہو … 6 مہینے کے اندر پی پی پی کی حکومت فرشتوں کی حکومت دکھائی دے گی!
تازہ ترین