• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں صاحب کی مرکزی حکومت کی دیکھا دیکھی سائیں قائم علی شاہ کی سندھ حکومت بھی صلح صفائی اور افہام و تفہیم کی راہ پر چل پڑنے کا خفیہ منصوبہ بنا رہی ہے۔ اسی منصوبے کے اہم یعنی چیدہ چیدہ نکات تک میرے خفیہ ہاتھ پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے جو چونکا دینے والے نکات بھیجے ہیں وہ آج میں آپ سے شیئر کر رہا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ دو سبق آموز کہانیوں کے خلاصے سن لیجئے اور چوکنا رہئے۔ کبھی بھی، کہیں بھی اس قسم کے واقعے کا آپ شکار ہو سکتے ہیں۔
کراچی کینٹ اسٹیشن کے قریب ایک ریسٹورنٹ میں دو لوگ چائے پی رہے تھے دیکھنے میں معقول لگ رہے تھے۔دونوں نے ٹائی لگائی ہوئی تھی اور دونوں کے پاس ایک ایک چھوٹا بیگ تھا۔ حلیے سے دونوں میڈیکل رپرنزیٹیو لگ رہے تھے۔ وہ دونوں DNA کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور ڈی این اے کو طبی علوم میں بہت بڑا بریک تھرو یعنی کارنامہ کہہ رہے تھے۔ اس سے جنس در جنس رشتے ناتوں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ کسی کے جائز یا ناجائز ہونے کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔ بے حرمتی کا شکار ہونے والی خواتین کو حتمی انصاف دلوانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے اور چائے بھی پی رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص دو تین سپاہیوں کے ساتھ ریسٹورنٹ میں داخل ہوا۔ سپاہیوں نے دونوں سیلز رپرنزیٹیوز کو بلاسفیمی کے الزام میں دھر لیا۔ پولیس کو لے آنے والے شخص نے کہا ”یہ دونوں کھلے عام ڈی این اے کی تعریف کے پل باندھے جا رہے تھے جبکہ ڈی این اے کو ممنوع اور غیر شرعی قرار دے دیا گیا ہے“۔
اب دوسری کہانی سن لیجئے۔ ایک ستّر برس کا بوڑھا پروفیسر بینک پہنچا۔ پاکستانی بینکوں سے اس کا یقین اٹھ چکا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی جمع پونجی ایک غیر ملکی بینک میں رکھی ہے۔ غیر ملکی بینک میں کوئی غیر ملکی کام کرتے ہوئے نظر نہیں آتا۔ غیر ملکی بینک میں کام کرنے والے اسمارٹ مرد اور خواتین دیسی ہیں یعنی پاکستانی ہیں۔ پروفیسر نے ایک خاتون افسر کو ایفیڈیوٹ دکھاتے ہوئے کہا ”میرے اکاؤنٹ سے زکوٰة نہیں کاٹی جائے۔ خاتون بینکر نے ایفیڈیوٹ دیکھتے ہوئے کہا ”اس پر دو گواہوں کے دستخط ہونے چاہئیں“۔
پروفیسر نے حیرت سے کہا ”دونوں گواہوں نے دستخط کئے ہیں“۔خاتون بینکر نے کہا ”دونوں گواہ خواتین ہیں، دونوں خواتین کی آدھی آدھی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے۔ آپ ایک مرد کی گواہی لے آئیں تب دو گواہوں کی شرط پوری ہو گی“۔
ریٹائرڈ پروفیسر سکتے میں آگیا۔ اس نے خود کو سنبھالا اور کہا ”میری ایک گواہ پی ایچ ڈی ہے اور یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف سائنس ہیں۔ میری دوسری گواہ انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی چیئرپرسن ہیں۔ سیکڑوں مرد ان کے ماتحت کام کرتے ہیں اور آپ کہہ رہی ہیں کہ وہ دونوں آدھی گواہ ہیں! مجھے افسوس ہے اس بینک کی سوچ اور قاعدوں پر“۔بینک میں موجود کسی شخص نے بوڑھے پروفیسرکو گردن سے پکڑتے ہوئے کہا ”تیری یہ مجال کہ تجھے خواتین کی آدھی گواہی پر اعتراض ہے!“
پروفیسر پر بلاسفیمی کا الزام لگ چکا ہے اور سزائے موت اس کا مقدر بن چکی ہے۔
اب آپ سائیں قائم علی شاہ کی دائم حکومت سندھ کے خفیہ منصوبے کا قصہ سنئے۔ یہ منصوبہ سندھ حکومت نے میاں صاحب کی مرکزی حکومت کی دیکھا دیکھی بنایا ہے۔ میاں صاحب کی ہیوی مینڈنٹ حکومت دہشت گردوں سے صلح صفائی، افہام و تفہیم اور بات چیت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یوں سمجھئے کہ حکومت نے دہشت گردوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ آپ ایسی صورت حال کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس کی لاٹھی، اسی کی بھینس۔ پاکستان بھینس ہے اور لاٹھی دہشت گردوں کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت بے بس ہے۔ سندھ میں دوسری طرح کے دہشت گرد ہیں۔ وہ طالبان یا لشکر جھنگوی کہلوانے میں نہیں آتے، ان کو کہتے ہیں دھاڑیل۔ وہ عام رواجی ڈاکوؤں سے مختلف ہوتے ہیں۔ بے رحم، وحشی، قاتل۔ دھاڑیلوں کی رکھوالی کرنے والے کو پتھاریدار کہتے ہیں لیکن موجودہ دور میں یہ قصہٴ پارینہ ہو چکا ہے۔ پتھاریدار سیاسی شخصیات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ وہ الیکشن لڑتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ اندرون سندھ شاید ہی کوئی ایسا دھاڑیلوں کا خونخوار جتھا ہو جو کسی قبیلے کا سردار، بااثر زمیندار اور کسی پیر سائیں کا پروردہ نہ ہو۔ وہ ان کے سائے تلے پھلتے پھولتے ہیں۔ کیا مجال ہے کسی پولیس والے کی کہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھے! دھاڑیل قتل کرتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، اغوا برائے تاوان کرتے ہیں، ضرورت پڑنے پر اپنے آقا یعنی سردار سائیں اور پیر سائیں کے باڈی گارڈ بن جاتے ہیں۔ ان کے بہی خواہوں، اغیار اور دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ شاید ہی سال میں ایک ایسا دن گزرتا ہو جب اندرون سندھ قبائلی اور ذات پات کی خونخواری اور چھوٹی موٹی جنگیں جاری نہ ہوں۔ سندھ کی ستّر فیصد آبادی اندرون سندھ رہتی ہے۔ خوفزدہ، مفلس، غربت اور وڈیرہ شاہی کی ذلت آمیز چکّی میں پسے ہوئے دیہاتی سانس لیتے ہیں تو سانس بھی ڈر ڈر کر لیتے ہیں۔ شام ہوتے ہی وہ اپنی اپنی جھگیوں اور جھونپڑیوں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نہ جانے کب اور کہاں دھاڑیل دھاوا بول دیں! دھاڑیلوں پر کوئی روک ٹوک تو ہے نہیں۔ سردار سائیں، نواب سائیں اور پیر سائیں کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں۔
اندرون سندھ رہنے والی ستّر فی صد سندھ کی آبادی کو خوف اور ڈر سے نجات دلوانے کے لئے سندھ حکومت نے دھاڑیلوں سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی منتیں کی جائیں گی، ان کو منانے کے لئے دھاڑیلوں کے تمام مطالبے مان لئے جائیں گے، دھاڑیلوں کی فلاح وبہبود اور آبادکاری کے لئے بجٹ میں ایک بھاری بھرکم رقم مختص کی گئی ہے۔ اس نیک کام کے لئے حکومت سندھ نے کمال کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے سربراہ ہیں پیر سائیں ساجن شاہ سریلوخفتی۔ کمیٹی کے ممبران عنقریب اندرون سندھ کا دورہ کریں گے اور دھاڑیلوں کے تمام گروپوں سے مذاکرات کریں گے۔ انشاء اللہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
تازہ ترین