• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
حکومتِ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کو آئندہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا۔جس سے حکومت کے مطابق تقریباً 70 سے 80 لاکھ باہر بیٹھے پاکستانی ووٹ کا استعمال کرسکیں گے، تمام بحث میں حکومت نے اس کا جواز یہ پیش کیا ہے کہ چونکہ یہ لوگ پاکستان کو زرِ مبادلہ بھیجتے ہیں اس لیے اس کے انعام میں انہیں پاکستان کی فیصلہ سازی میں ووٹ کا حق دینا چاہیے۔ پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیاں اس ووٹنگ کے حق میں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جھرلو ایک بڑا ذریعہ تراش لیا گیا ہے، جو بھی حکومتِ وقت ہوگی، جھرلو اس کے ہاتھوں میں ہوگایا پھر اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ان ستّر، اسّی لاکھ ووٹوں کی بندر بانٹ کِیا کرے گی۔ بیرون ممالک میں بیٹھے لوگ بھی بہت ہی بھولے ہیں کہ مطالبے کرکے خود کو الیکشن دھاندلی کے لیے بطور ٹشو پیپر پیش کررہے ہیں۔ اکائونٹنٹ حضرات جانتے کہ اکائونٹ بناتے ایک Balancing Figure استعمال ہوتی ہے، جو کسی غیرضروری کونے کھاتے سے نکال کر حساب کتاب برابر رکھنے کے کام آیا کرتی ہے۔یہ بیرون ملک والے پاکستان کے انتخابی نتائج میں بیلنسنگ فگر کےکام آیا کریں گےجو پاکستانی گزشتہ چالیس پینتالیس سال سے بیرون ممالک میں قیام کیے ہوئے ہیں دُہری شہریت رکھتے ہیںسال میں یا بعض پانچ دس سال میں ایک بار پاکستان دو یا تین ہفتوں کے لیے جاتے ہیں ۔ وہ پاکستان کے انتخابات میں یا چنائو میں حصہ لیں گے جو نہ تو کسی امیدوار کو جانتے ہوں گے نہ ہی کسی پارٹی کے لیڈر کو۔صرف انہی کو جانتے ہوں گے جنہیںٹی وی چینل پر دیکھتے سنتے ہوں گے۔ جن پارٹیوں یا سیاسی لیڈروں کی میڈیا تک اتنی رسائی نہیں ہے انہیں تو نہ کوئی جانتا ہوگا نہ ہی انہیں کوئی ووٹ دے گا۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لیڈر اپنے ووٹروں سے ملنے اور انہیں اپنے خیالات سنانے بیرون ملک کے دورے کیا کریں گے ۔ یہ بھی فقط ان لیڈروں کو ہی مواقع میسر ہوں گے جو پہلے سے ہی اکثر بیرون ملک آتے جاتے ہیں، غریب سیاسی لو گ تو ایسا بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے ان کے امیدوار اور پارٹیاں بیرون ممالک کے اس نئے تحفے سے محروم ہی رہیں گی۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کےلیڈران باہر آتے ہیںاور سیاسی کارکنوں سے خوب خدمت کرواتے ہیں۔ جاتے ہوئے وعدے کرجاتے ہیں اور ان بے چاروں سیاسی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرجاتے ہیں۔ اور یہ سادہ لوح بڑے پیار سے ان کے فریب میں پھنس جاتے ہیںاور وہی بولی بولنی شروع کردیتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان رقوم بھیجنے کا تعلق ہے تو اس کا بھلا ووٹ کے حق سے کیا لینا دینا۔وہ رقوم تو بھیجنے والے اپنے عزیز و اقارب کو بھیجتے ہیںاس کا کسی حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ رقوم بھیجتے ہوئےان کے دماغوں میں اور نیت میں یہ نہیں ہوتا کہ پاکستان میں حکومت کس کی ہے بلکہ وہ اپنے عزیز و اقارب کی ضرورتوں میں گھِری زندگی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور انہی ضرورتوں کے لیے رقم بھیجتے ہیں۔ حکومتیں بجائے اس کے کہ لوگوں کی ضروریات کی وہیں بہتر نظام کے ذریعے کفالت کریں تاکہ انہیں بیرون ممالک میں رہنے والے اپنے عزیز و اقارب کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ الٹا حکومتیں اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے بیرون ممالک میں بسنے والوں کی جھوٹی لیکن خوشامدانہ حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو خاص طور پر سمجھتی ہے کہ ان کا بیرون ملک میں بڑا ووٹ پڑا ہوا ہے جو کہ انہیں اپنے استعمال میں لانا چاہیے۔اس لیے جلدی میں باقاعدہ قانون سازی کی بجائے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس ووٹنگ کو جاری اور حلال کردیا گیا ہے۔ اب دوسری پارٹی والوں کو اچانک احساس ہوا ہے کہ یہ تو جو پارٹی ووٹ لینے میں پہل کرگئی اُسے پھر نکالنا مشکل ہوجائے گا اب کہنا شروع ہوگئے کہ الیکڑانک ووٹنگ قابلِ قبول نہیں ۔یا اوہ اس آرڈیننس کے قانون بننے پر مخالفت کریں گے۔ انہیں اصل سمجھ تو اس وقت آئے گی جب کوئی باقاعدہ ڈکٹیٹر اقتدار کو انہیں ووٹوں سے طوالت بخشےگا ۔ کچھ پارٹیاں یہ بھی کہہ رہی ہیں بیرون ممالک میں بسے لوگ اپنے نمائندئے منتخب کرکے پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھیجیں یہ بھی سادہ لوحی کی ایک تصویر ہے جس کی عملی شکل ممکن نہیں کیوں کہ صرف برطانیہ میں ہی تو پاکستانی نہیں رہتے۔ کہاں کہاں سے نمائندے بھیجے جائیں گے سب نے اپنے اپنے مفادات کےپیش نظر ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر رکھ دیا ہے اور یہ پاکستانیوں کا خواصہ ہےکہ خواہ پاکستان میں رہتے ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک میں دہائیوں سے آباد ہوں۔اللہ ہی ہے جوانہیں سمجھے۔
تازہ ترین