• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عمران الحق۔۔۔ برمنگھم
دنیا میں بے شمار افراد آئے اپنی زندگی بسر کر کے چلے گئے لیکن آج ان کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے کچھ لوگ ایسے بھی بھیجے جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے کے ان کا نام تا قیام قیامت روشن رہے گا ۔وہ اپنی جہد مسلسل سے ایسے انمٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں کہ دنیا ان سے ہمیشہ روشنی لیتی رہے گی انہیں صفات کی حامل ایک تاریخ ساز شخصیت حضرت مولانا قاری تصور الحق مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے اس بندہ درویش کو ہم سے بچھڑے آج ایک برس بیت گیا ہے ابھی تک یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں نہیں ہیں کیونکہ وہ ہمارے لیے ایسی یادیں اور ایسے نقوش چھوڑ گئے ہیں جو ہر وقت ہمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتےرہتے ہیں قاری صاحب اپنے اعلی اخلاق اور حسن کردار سے ہمیں ایک تو یہ سبق دے گئے ہیں کہ اچھائی ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو کبھی مرنے نہیں دیتا اور دوسرا یہ کہ انسان اگر اپنی زندگی کا کوئی نصب العین متعین کر لے تو پھر راستے میں آنے والی تمام مشکلات کے بادل خود بخود چھٹتے چلے جاتے ہیں یوں تو بھائی کا رشتہ ہونے کی وجہ سے اور پھر بالخصوص والد محترم کے اس وقت انتقال کر جانے کہ جب میری عمر صرف نو برس تھی میری ان سے بہت زیادہ قربت تھی اور انہی کے سایہ عاطفت میں پروان چڑھا ہوں اور پھر میرے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد یہ رشتہ ایک قائد اور کارکن کی صورت میں بھی اجاگر ہوا بطور قائد اور ایک انسان کے جو میں نے مشاہدہ کیاوہ یہ ہےکہ اللہ پاک نے ان کو جو خوبیاں عطا کی ہوئی تھیں بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی مولوی صاحب یا کوئی گدی نشین کوئی مقام پا لیتے ہیں تو عام لوگوں کو قریب پھٹکنے نہیں دیتے،ملاقات کے لیےخاص پروٹوکول کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن قاری صاحب کے اندر یہ خاصیت تھی کہ چاہے کوئی خاص ہو یا عام چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک سے اس محبت و احترام سے ملتے تھے کہ وہ اپنائیت کا احساس محسوس کرے اور یہی خوبی تھی کہ جب وہ اس دنیا سے گئے تو ایسے افراد بھی تھے جن سے شاید وہ زندگی میں ایک ہی دفعہ ملے ہوں لیکن ان کو یہی کہتے سنا کہ قاری تصورالحق صاحب میرے بہت اچھے دوست تھے پھر اپنے بڑوں اور بالخصوص اساتذہ کا احترام ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ حضرت قاری صاحب کے استاد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحمان کی زبانی میں نے سنا اور مجھ سمیت کئی لوگ اس کے گواہ ہیں کہ ان کے سامنے یا غائبانہ ان کا تذکرہ ُاستاد جی،کے علاوہ کسی اور لفظ سے کبھی بھی نہیں کیا اس کے علاوہ دیگر علمائے کرام اور دوستوں سے ہمیشہ بے تکلفی کا رشتہ رکھتے تھے۔ دوسری طرف اگر ان کی زندگی کے نصب العین پر بات کروں تو زمانہ طالب علمی سے ہی وہ ایک تحریکی نوجوان کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ان کی گھٹی میں شامل تھا ۔مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد جب برطانیہ منتقل ہوئے تو جمیعت علمائے برطانیہ کو متحرک کیا پھر لندن کے ویمبلی ہال میں منعقدہ ختم نبوت کانفرنس کو کامیاب بنانے میں سب سے اہم ترین کردار انھی کا تھا سیرت کانفرنس کے سلسلے کا آغاز اور پھر اس کو ربع صدی سے زائد انتہائی کامیابی کے ساتھ چلانا ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت اور سیرت رسولؐ کو ہر عام و خاص تک پہنچانے کی ان کی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہے مسجدعمر کا آغاز اور پھر مسجد طیبہ کا حاصل کرلینا ایک عارضہ قلب میں مبتلا بندے کے لئے کافی تھا لیکن نصب العین یہ تھا کہ اہل ایمان کے لیے ایک بڑا مرکز بنانا ہے پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی ذات کی کوئی پرواہ نہ کی شوگر لیول کم ہے یا زیادہ کھانا کھایا ہے یا نہیں، کوئی فکر نہیں لیکن فکر ہے تو یہ کہ آج اگر لکڑی والے کے ساتھ رات 12 بجے تک نہ بیٹھا تو یہ کام مکمل نہیں ہو گا اور مسجد کا کام ادھورا رہ جائے گا ،اگر آج فلاں بندے کے گھر پر دستک دے کر اس سے مسجد کے لیے مدد کی اپیل نہ کی تو کل بلڈرکابل کیسے ادا کروں گا یہی جذبہ تھا جس نے ان کو اپنی زندگی میں مسجد علی کی رونقوں کو جگمگاتے ہوئے دکھایا اور آج اور تا قیام قیامت یہ مسجد ہمیں اس بات کا سبق دیتی رہے گی کہ اگر انسان کچھ کر لینے کا پختہ عزم کر لے تو پھر دنیاوی مشکلات اس کا راستہ کبھی بھی نہیں روک سکتیں قاری صاحب بظاہر مختصر عمر لے کر آئے تھے لیکن اپنی جہد مسلسل اور کارہائے گرانقدر سے حیات جاوداں پا گئے ہیں ان کی وفات پر کہیں کہیں مایوسی کی کچھ سرگوشیاں بھی تھیں لیکن آج ایک سال بیت جانے پر میں دلی طور پر مطمئن ہوں کہ اللہ تعالی نے حافظ عدیل کو ان کے لیے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول کر لیا ہے جس محنت اور لگن کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں یقیناًقاری صاحب کی روح کے لیے باعث تسکین و راحت ہے آج ہم سب اہل خاندان، دوست، احباب،قاری صاحب کے متعلقین ومحبین کا غم ایک بار پھر تازہ ہو گیاہے اور بالخصوص برادر مکرم میاں اکرام الحق کے لیے بہت تکلیف دہ دن ہے کہ جن کو قاری صاحب سے بچپن سے ہی بہت زیادہ قربت رہی ہے اللہ تعالی ان کو صحت و تندرستی نصیب فرمائے اور صبرجمیل عطا فرمائے اللہ تعالی حضرت قاری صاحب کی بال بال مغفرت فرمائے ان کی قبر کو اپنے نور سے منور فرمائے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور ان کے نیک اعمال کی بدولت ہمیشہ ان کے نام کو زندہ و جاوداں فرمائے۔
تازہ ترین