• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ایک مرحلے پر موجودہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے نہ فقط سندھی ججوں کو سلیوٹ کیا مگر یہاں تک تسلیم کیا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ آج میں اس وجہ سے زندہ ہوں کہ ہوائی جہاز اغوا کئے جانے والے الزامات کے تحت ان پر مقدمہ کراچی میں چلا“ انہوں نے مزید کہا کہ ”حالانکہ مقدمہ چلانے والی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزا دی تھی مگر انہیں یقین ہے کہ اگر ان پر یہ مقدمہ پنجاب یا سرحد (کے پی) صوبے کی کسی عدالت میں چلتا تو پنجابی یا پٹھان جج انہیں ضرور سزائے موت دیتے اور اس طرح وہ سزائے موت سے نہیں بچ سکتے تھے“۔ یہ الفاظ میاں نواز شریف کے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ نواز شریف صاحب ان الفاظ کو آج بھی Own کریں گے‘ یہ جملے میں نے ایک اہم کتاب سے مستعار لئے ہیں جو یہ کالم لکھتے وقت میرے ہاتھ میں ہے‘ اس کتاب کا ٹائٹل ہے ''From Bhutto To Benazir''- STORY UNTOLD'' ‘ یہ کتاب سندھ اور پاکستان کے ایک مایہ ناز قانون دان بیرسٹر عزیز اللہ شیخ کی آپ بیتی پر مشتمل ہے۔ کتاب کے مطابق بیرسٹر عزیز اللہ شیخ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ان سے یہ باتیں نومبر 2006ء میں لندن میں ان کے آفس میں کیں‘ اس میٹنگ میں میاں شہباز شریف اور سید غوث علی شاہ بھی موجود تھے۔ جہاز ہائی جیکنگ والے مقدمہ میں بیرسٹر عزیز اللہ شیخ میاں نواز شریف کے وکیل تھے۔ میں یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ جو سندھی جج اس کیس کی سماعت کررہے تھے ان کا نام جسٹس رحمت حسین جعفری تھا‘ جب یہ کیس چل رہا تھا تو یہ بات کسی سے بھی چھپی ہوئی نہیں تھی کہ جسٹس جعفری پر مکمل دباؤ تھا کہ نواز شریف کو اس کیس میں سزائے موت دی جائے‘ مجھے یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ اس معاملے پر سندھ کے کچھ مخصوص حلقوں میں یہ بحث ہوتی رہتی تھی کہ اس کیس میں نواز شریف کو سزائے موت ملنی چاہئے یا نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک ایسی کچہری میں‘ میں بھی موجود تھا‘ کچھ سندھی نوجوان بضد تھے کہ جس طرح پنجابی ججوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تو اس وقت اس سندھی جج کا بھی فرض ہے کہ اس پنجابی سیاستدان کو پھانسی کی سزا سنائے مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس میٹنگ میں موجود اکثر سندھی زعماء نے اس تجویز کی سختی سے مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھی جج کو انصاف کرنا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ بے پناہ دباؤ کے باوجود جسٹس رحمت حسین جعفری نے نواز شریف کو سزائے موت دینے سے انکار کردیا مگر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ان کو عمر قید دینے پر مجبور ہوگئے‘ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق جسٹس جعفری اس فیصلے پر بھی دل سے خوش نہیں تھے‘ اس کے بعد جسٹس رحمت حسین جعفری ریٹائرڈ ہوگئے اور اب تک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں‘ جب نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بنے تو کچھ سندھی قانون دان جو اس ساری کتھا سے اچھی طرح واقف تھے ان کا خیال تھا کہ نوازشریف وزیراعظم بنتے ہی پہلی فرصت میں وہ جسٹس رحمت حسین جعفری کو اسلام آباد پورے پروٹوکول کے ساتھ مدعو کرکے انہیں ملک کا کوئی بڑا اعزاز دیں گے مگر ہوسکتا ہے کہ مسائل کے انبار کی وجہ سے فی الحال ان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی ہو اور شاید انہیں جسٹس رحمت حسین جعفری کا نام بھی یاد نہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو جو ایک سندھی تھے کو پنجابی ججوں نے پھانسی پر چڑھا دیا اور بعد میں جب نواز شریف ملک کے سربراہ بنے تو اکثر سندھی اس رائے کے تھے کہ چونکہ نواز شریف پنجابی ہیں لہٰذا وہ جو چاہے کرے مگر راج کرتا رہے گا جب ان کا تختہ الٹا گیا اور ان پر بھی ایسے ہی مقدمات دائر کئے گئے تو سندھ میں دو آراء تھیں‘ ایک رائے یہ تھی کہ نواز شریف کچھ بھی کریں مگر انہیں نہ بے عزت کیا جائے گا نہ پھانسی دی جائے گی مگر ایک مرحلے پر اس پنجابی سیاستدان کے ساتھ پنجابی جنرلوں اور پنجابی ججوں کے صوبے پنجاب میں جو سلوک کیا گیا جس کی تفصیل کسی حد تک بیرسٹر شیخ نے اس کتاب میں دی ہے وہ پڑھ کر ہاتھ کانپنے لگے۔ بیرسٹر شیخ لکھتے ہیں کہ کیونکہ ہائی جیکنگ کیس کی سماعت لانڈھی جیل کراچی میں ہو رہی تھی جبکہ نوازشریف ایک اور کیس کے سلسلے میں پنجاب کی اٹک جیل میں تھے تو انہوں نے درخواست دی کہ نوازشریف کو لانڈھی جیل منتقل کیا جائے‘ بڑے رد و کد کے بعد درخواست منظور کی گئی اور نوازشریف کو سب سے پہلے کامرہ ہوائی اڈے پر ایک چھوٹے سے جہاز میں منتقل کیا گیا‘ یہاں نواز شریف اور پولیس اہلکاروں کے درمیان گرما گرمی ہوئی اور جب اسے اس چھوٹے سے جہاز میں بٹھایا گیا تو اس سابق وزیراعظم کے ہاتھ پیچھے سے باندھے گئے اور زنجیروں کے ذریعے اسے سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا‘ شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا کہ دوسری سماعت کے لئے ان کو کراچی لاتے وقت ان کے منہ میں کپڑا بھی ٹھونسا گیا تاکہ وہ بول نہ سکیں۔ نوازشریف کی طرف سے سندھی ججوں کو سلیوٹ کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے بیرسٹر شیخ نے کہا کہ بقول نوازشریف انہوں نے کہا کہ وہ سندھ کے ان سارے ججوں کو سلیوٹ کرتے ہیں جنہوں نے قطع نظر اس کے کہ ان کی نسلی وابستگی کیا ہے سب نے اس وقت مشترکہ طور پر سپریم کورٹ سے استعفیٰ دے دیا جب انہیں کہا گیا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھائیں۔ سچی بات یہ ہے کہ نہ فقط نواز شریف مگر یہ سارے قابل احترام جج ساری قوم کے سلیوٹ کے حق دار ہیں۔ اب ذرا سندھی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائے جانے والے مقدمہ کی بھی بات ہوجائے۔ اس کیس کے حوالے سے پاکستان اور خاص طور پر سندھ کے عوام اردو بولنے والے سینئر جج جسٹس وحید الدین کو کیسے بھول سکتے ہیں‘ جسٹس وحید الدین، جسٹس وجیہہ الدین کے والد محترم ہیں‘ پاکستان کی تاریخ کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جسٹس وحید الدین کو مصنوعی وجوہات کی بنا پر اس بنچ سے خارج کردیا گیا جو بھٹو کے کیس کی سماعت کررہی تھی کیونکہ کئی قانون دانوں کے مطابق اس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس وحید الدین جو آبزرویشن دیتے تھے ان سے یہ بات عیاں تھی کہ وہ کم سے کم بھٹو کی پھانسی کے حق میں فیصلہ نہیں دیتے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہیں ایک معمولی ہارٹ اسٹروک ہوا تھا مگر ڈاکٹروں کے مطابق وہ دو تین ہفتوں کے اندر بالکل ٹھیک ہوجاتے مگر جنرلوں کے دباؤ میں باقی ججوں نے اجلاس کرنے کا فیصلہ کیا کہ کیونکہ جسٹس وحید الدین کی طبیعت درست نہیں لہٰذا انہیں بنچ سے خارج کیا جاتا ہے‘ یہی کچھ اس بنچ کے ایک اور جج جسٹس صفدر شاہ کے ساتھ کیا گیا‘ نواز شریف صاحب نے شکایت کی ہے کہ اگر ان پر یہ کیس پنجاب یا کے پی کی کسی عدالت میں چلتا تو انہیں بھی پھانسی کی سزا دی جاتی‘ نواز شریف صاحب سے درخواست یہ ہے کہ کے پی، کے حوالے سے اپنی رائے میں ضرور ترمیم کریں۔ واضح رہے کہ بھٹو کے کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس صفدر شاہ پختون تھے کی آبزرویشنزسے بھی ظاہر ہورہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بجائے انہیں باعزت بری کرنے کے حق میں تھے لہٰذا ان کی ڈگری کو بوگس قرار دیکر انہیں بنچ سے خارج کردیا گیا بعد میں پاکستان میں رہنے کے لئے ان کے لئے حالات اتنے تنگ کردیئے گئے کہ انہیں خچر پر سوار ہوکر پاکستان‘ افغان بارڈر کراس کرکے افغانستان جانا پڑا جہاں سے وہ لندن پہنچے اور بعد میں ان کا انتقال بھی لندن میں ہوا‘ کہا جاتا ہے کہ عدالتی قوانین کے مطابق پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس قیصر خان کو اس بنچ میں بطور ایڈہاک جج شامل کرنا تھا مگر یہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا کہ ان کے بارے میں بھی انٹیلی جنس کی رپورٹس تھیں کہ وہ بھی بھٹو کو بے گناہ تصور کرتے ہیں اگر جسٹس وحید الدین‘ جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس قیصر خان بنچ میں ہوتے تو پانچ جج یعنی جسٹس حلیم‘ جسٹس درّاب پٹیل‘ جسٹس صفدر شاہ اور جسٹس قیصر خان بھٹو کو باعزت بری کرتے اس طرح اکثریتی ججوں کا فیصلہ بھٹو کو باعزت رہا کرنے کے بارے میں ہوتا۔ سندھ کے باسی نوازشریف کا بڑا احترام کرتے ہیں‘ ان سے تقاضا کرتے ہیں کہ کیا اس ملک میں نئے سرے سے صورتحال شروع نہ کی جائے‘ آئیے ایک Undiluted جمہوریت کو یقینی بنائیں۔ آئیے ایک حقیقی وفاق کو حقیقت بنائیں۔ نواز شریف صاحب ایک بار سندھ کے لوگوں کے قریب تو آئیں پھر دیکھئے سندھ کے لوگ نہ فقط آپ کا ساتھ دیں گے بلکہ آپ کے دفاع کے لئے اپنی جانیں بھی نچھاور کردیں گے۔
تازہ ترین