• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی عدالت نے 66 سالہ پاکستانی بیوہ کی امیگریشن درخواست مسترد کردی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) برطانوی عدالت نے 66 سالہ پاکستانی بیوہ کی امیگریشن درخواست مسترد کردی ہے۔ متاثرہ خاتون نادرا مشتاق کا کہنا تھا کہ انہوں نے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 8 کے تحت درخواست دی تھی، جب کہ ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت خاندانی زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہی۔ تفصیلات کے مطابق، برطانیہ کی ایک عدالت نے پاکستان کی ایک 66 سالہ بیوہ کی برطانیہ میں مستقل سکونت کی درخواست مسترد کردی ہے۔ حالاں کہ خاتون کے تین بچے برطانوی شہری ہیں اور وہیں مستقل رہائش رکھتے ہیں۔ 66 سالہ نادرا مبین نے برطانیہ میں مستقل رہائش کی درخواست کی تھی، جسے عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ اپنی فیملی سے برطانیہ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے رابطہ رکھ سکتی ہیں اور ان کی فیملی بھی انہیں پاکستان میں سپورٹ کرسکتی ہے۔ نادرا مبین کے شوہر کا انتقال 15 برس قبل ہوا تھا ۔ انہوں نے 2011 کے بعد سے پاکستان میں صرف 12 ماہ ہی گزارے ہیں، جب کہ وہ زیادہ عرصے برطانیہ میں ہی رہی ہیں۔ وہ 2014 میں وزٹ ویزا پر برطانیہ گئی تھیں اور ویزا کی معیاد گزر جانے کے باوجود وہ غیر قانونی طور پر وہاں مقیم رہیں۔ انہوں نے انسانی حقوق کی بنیاد پر درخواست دی تھی جو کہ انسانی حقوق سے متعلق یورپی کنونشن کے آرٹیکل 8 کے مطابق تھی۔ مرکزی لندن کی لا فرم سے تعلق رکھنے والے شہریار خان جنہوں نے یہ کیس لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے، خاص کر ایسے برطانوی شہری جن کے بوڑھے رشتہ دار برطانیہ مقیم ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ خاندانی زندگی کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے کیوں کہ بچوں کی محبت معمول کے جذبات سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ عدالت میں نادرا مبین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8 کے تحت ان کی خاندانی زندگی بھی ہے اور ان کی درخواست مسترد کیا جانا آرٹیکل 8 کے خلاف غیر قانونی ہے۔ اس سے برطانیہ کی دوسری بڑی عدالت نے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ لوئر کورٹ نے غلط فیصلہ کیا تھا اور اس سے ہزاروں درخواست گزار متاثر ہوسکتے ہیں۔ تاہم، عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر وہ برطانیہ میں خاندانی زندگی شروع بھی کرلیتی ہیں تب بھی وہ مذکورہ قانون کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ جب کہ شہریار خان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی حیرت انگیز فیصلہ نہیں تھا تاہم اس سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ ایک اور فیملی ٹوٹے امیگریشن نظام کی وجہ سے علیحدہ ہوگئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب وہ برطانیہ کی سپریم کورٹ سے مذکورہ فیصلے کے خلاف رجوع کریں گے۔

تازہ ترین