• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوش قسمتی سے پاکستان ایسے دور میں کرپشن ، بدنظمی ، نااہلی اور لاقانونیت کا شکار ہوا ہے جب شیطانی اذہان کی پیداوار ان برائیوں کا قلع قمع کر نے کے علوم نے سائنس کی حیثیت اختیار کر لی ہے ۔ وگرنہ ہمارے ''جمہوریت پسند'' اور ''عوام دوست'' سیاستدانوں نے فروغ جمہوریت اور عوام دوستی کے مواقع ملنے پر بھی اسلامی جمہوریہ کا جو حشر کیا ہے اس میں تو ( میرے منہ میں خاک) ملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے ۔ دہشت گردی ، لو ڈشیڈنگ ، جرائم میں اضافہ اور مہنگائی جیسے سنگین نوعیت کے مسائل کو کم کر نے کے لیے کچھ ریلیف دینا یا ان میں قدرے بہتری پیدا کرنے کی اپروچ اختیار کرنا اب مسائل کا ہر گز حل نہیں ، جبکہ عوام مہنگائی کے ایک اور طوفان میں گھر چکے ہیں ۔
خدارا ، حکمران عوام کی اصل ذہنیت کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ خدا نخواستہ عوام کی اکثریت کوکوئی دو وقت کی روکھی سوکھی بھی نہیں مل رہی ، وہ تو اذیت میں یوں مبتلا ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں حکمرانوں کا پیدا کردہ جتنا بڑا منصوعی بحران ہے ، اس میں ان کی خیر خواہی کے دعوے کر نے والے منتخب نمائندے ، ان کی ملازم بیوروکریسی ، معاشرے کے نکمے اورجھوٹے لیکن رَج کے بے ضمیر ے ، جعل ساز ، عوامی اور اجتماعیت کے شعور سے بے بہرہ معتبر اور سینے تان کر معاشرے کے معزز بنے ہو ئے ہیں ۔ ایسا نہ ہو تو عوام کی حالت کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ ایول جینئس ، جنیوئن جینئس پر غالب ہے ۔ نکموں اور نااہلوں کے درجے کی بے حیائی اور بے حسی ''قابل رشک '' معاشرتی مقام کا مطلوب پوٹینشل بن گیا ہے تو ان کے تن بدن میں بھی آگ لگی ہوئی ہے ۔ یقین کریں کہ لوڈ شیڈنگ ( جس میں قابل تعریف حد تک کمی ہوئی ہے ) سے حکمرانوں کی بے چینی میں کچھ کمی تو آئے گی ، لیکن جب تک آئین و قانون سے ماورا سیاست دانوں ، بزنس سیکٹر کے ٹیکس اورشعبہ صنعت کے بجلی چوروں کے جرائم کا تدارک نہیں ہوتا ٹیکس گزار باشعور عوام کے سینے دھکتے رہیں گے ۔ اعلی معاشرتی مقام حاصل کر نے والے اوپر کی سطح کے نکموں اور نااہلوں کو ان کے مقام پر نہیں لایا جاتا تو یہ دہکتے سینے آتش فشاں نہ بن جائیں ۔ حکمرانوں کے شعور کی ایک بڑی کمی یہ ہے کہ وہ عوا م کو ''عوام '' کے طور پر ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ نہیں جانتے کہ عوام الناس کا ایک اہم طبقہ روٹی ، کپڑے اور مکان کے مسئلے سے دوچار نہیں ۔ وہ اپنی تنخواہوں او ر درمیانی آمدنی میں سے ٹیکس بھی دیتا ہے ۔ کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کے لیے سب سے خطرناک طبقہ یہ ''کم بخت '' باشعور چودہ سولہ جماعت پاس ہے ۔یہ سٹیٹس کو کی ان قوتوں ( بے حق اور غیر معمولی مراعات یافتہ ، قانون کی گرفت سے محفوظ طبقہ ) پر نظر رکھتا ہے ۔ جن کروڑہا عوام کو سٹیٹس کو ء کی قوتوں نے کیڑے مکوڑے بنایا ہوا ہے یہ ان کو چھیڑ چھاڑ کر حرکت میں لانا جانتا ہے ۔ ویسے بھی اب ”کیڑے مکوڑے “ استحصال مسلسل سے بھنا گئے ہیں ۔ پھر مڈل کلاسیوں کی انہیں چھڑ کر حکمرانوں کی طرف رخ کرانے کی سکت بھی بڑھتی جارہی ہے ، باوجود اس کے کہ سیاست دانوں کی ناجائز دولت اور ایول جینئس کی ملی جلی مکاری سے یہ طبقہ تقسیم بھی ہے ۔ لیکن ایک منقسم دھڑا ”کم بخت“ ایساہے جو بے قابو ہے ۔ سٹیٹس کو کے مقابلے میں اس کی طاقت بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ارب ہا روپے کی انتخابی مہم کے باوجود توقع سے بھی زیادہ انتخابی شکست نے اس امر کی تصدیق کی ہے۔
گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کے وفاقی اور صوبائی منتخب ایوانوں کی جو مجموعی شخصیت نکل کر آئی ہے ، اسے جمہوریت کا ارتقاء سمجھ کر مطمئن ہو نے والے سٹیٹس کو کے پجاریوں کے لیے بری خبر یا پریشان کن تجزیہ ہے کہ نظام بد کے سامنے بظاہر بے بس معلوم دینے والے طبقے کی قوت میں مزید اضافے کا امکان ہے ۔ چودہ سولہ جماعت پاس طبقے میں سے لاکھوں شتونگڑوں کی ایک آف شوٹ اور نکل آئی ، سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی سے سٹیٹس کو ء کی حقیقت کے پردے چاک کرنا ان کا کھیل تماشہ بنتا جا رہا ہے ۔ ''کم بخت '' مین سٹیریم میڈیا کو بھی پیچھے چھوڑے جا رہے ہیں ۔ تدارک ایک ہی ہے کہ سٹیٹس کو ء کی موجودہ حکمران لاٹ کو خود محفوظ رکھتے ہوئے تیزی سے ( اب بتدریج نہیں ) کرپشن ، لاقانونیت اور مصنوعی غربت کے خاتمے کے لیے ، پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کی بجلی و ٹیکس چوری پکڑنے کے لیے قانون کا یکساں نفاذ کیا جائے ۔ انتظامیہ کو نااہلیت کے غلبے سے بچانے اور ملک میں آئین کی حقیقی بالادستی کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ حکمراں قوم کو درپیش طرح طرح کے خطرناک بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ان کی شدت اور نوعیت کے مطابق ہی عزم اور اس کی منصوبہ بندی کریں ، جسے عوام کے لیے عام کرنا لازم ہے ۔ اس میں اپوزیشن ، چودہ سولہ جماعت پاس اور شتونگڑے عظیم قومی کاز سمجھتے ہوئے اسے مکمل سنجیدگی سے لیں اور قومی جذبے سے اپنی رائے سے حکومت کو نوازتے ہوئے اہداف کے حصول میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس فکر میں مبتلاء نہ ہو ں کہ حکومت فلاں کی ہے ،کریڈٹ فلا ں کو جائے گا ۔ گاڑی چل پڑی تو منز ل پر بھی پہنچ جائے گی ۔ پوری قوم اور ساری دنیا کریڈٹ پاکستانی قوم کو دے گی ۔ عوام کو شریک سفر کیے بغیر اور عوام کے شریک سفر ہو ئے بغیر اب یہ گاڑی چلانا تنہا حکومت کے بس کا روگ نہیں۔
حکومت ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے دسیوں ایسے اہداف بنا سکتی ہے ، جن کے حصول میں مالی وسائل کا دخل ہے نہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا، بلکہ اس سے سر کاری اخراجات میں کمی اور آمدن میں اضافہ ہی ہو گا ۔ موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے ہی یہ اہداف حاصل کرنا یقینا ممکن ہے ۔ شرط اول اور واحد نیک نیتی ہے ۔ حکومت ہمیں یہ نہ بتائے کہ اب بالائی اور بابوطبقے کا ذہن مجوزہ اقدامات کے لیے تیار نہیں ۔ قانون سازی اور قانون کا اطلاق حکومت کا کام ہے ۔ اگر وہ کرپٹ سیاست دانوں اور پس پردہ چالاک بابوؤں کے رویے سے بے حس ہو کر نظام بد ایسے ہی چلنے دیتی ہے تو وہ حکومت نہیں شریک جرم ہے ۔
حکومت نے کرنا کیا ہے ؟ اہم ترین ہے کہ جدید علوم ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایڈمنسٹریٹو و مینجمنٹ سائنسز ، کمیونیکیشن سائنس ، فنانشل مینجمنٹ، پولیٹیکل سائنس اور ایسے دیگر مطلوب ڈسپلنزکے جدید اصولوں اور طور طریقوں کو اختیار کر نے کی پولیٹیکل ول پیدا کی جائے ۔ یاد رہے کہ ا ن تمام ڈسپلنز کے ٹا پ پاکستانی ایکسپرٹس قومی ضرورت کے مطابق موجود ہی نہیں اضافی ہیں ۔ نیک نیتی اور سائنٹفک طریقے سے کام کیا گیا تو یہ ذہن نشین رہے کہ سمندر پار پاکستانی ماہرین اس وقت ملک کو بحران سے نکالنے کے جذبے سے سر شار ہیں ۔ ہم درست ہوجائیں تو وہ مہارت ہی نہیں سرمایے کے ساتھ وطن میں حاضر ہو نگے ۔ اگر وہ خاموش بیٹھے کڑھ رہے ہیں تو واضح رہنا چاہیے کہ وطن میں ہی گڑ بڑ ہے ۔ حکمران مانے نہ مانے لیکن اب عوام یہ ہر گز نہ مانیں گے کہ انتخابات کے بعد حکمراں طبقہ آئین و قانون کی پکڑ سے بدستور محفوظ ہی رہے اور قانون کا اطلاق فقط بے اختیار اور طرح طرح کی پریشانیوں سے دوچار مصنوعی غربت کے شکار اور چودہ سولہ جماعت پاس مڈل کلاسیوں پر ہی ہو ۔
صراط مستقیم کی طرف پہلا قدم یہ ہے کہ حکومت بجلی و ٹیکس چوری کے خاتمے (خصوصاً انڈسٹریل او ر بزنس سیکٹر میں ) کا منصوبہ روڈ میپس ( نظام الا اوقات ) کیساتھ بلا تاخیر لائے ۔ عوام کو واضح طور پر بتایا جائے کہ کتنے وقت میں کرپشن کو کس کس سطح پر کتنے کتنے فیصد ختم کیا جائے گا ۔ ہر قسم کے قانون کا اطلاق اوپر کی سطح سے شروع کیا جائے اور واضح کیا جائے کہ اس کے تیزی سے افقی سطح تک آنے کا روڈ میپ کیا ہے ۔ یہ ساری منصوبہ بندی حکومتی ارادوں کی عملاً عکاس ہو اور ہونے والی کاروائی جلدی جلدی عوام کی پہنچ کے لیے حکومتی ویب سائٹ پر موجود ہو ۔ وماعلینا الاالبلاغ
تازہ ترین