• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی ماہ گزرنے کے بعد رمشا مسیح کی کہانی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اسلام آباد کے گاؤں میراں جعفر کی رہائشی 12 سالہ رمشا مسیح کو گزشتہ سال جولائی میں پولیس نے ایک مقامی شخص کی شکایت پر توہین مذہب کے قانون کے تحت گرفتار کیا تھا۔ رمشا پر الزام تھا کہ اس نے مقدس مذہبی اوراق نذر آتش کئے تھے اور وہ توہین مذہب کی مرتکب ہوئی تھی جس کے بعد رمشا کے خلاف کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے رمشا پر لگائے گئے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور رمشا کا نام مقدمے سے خارج کرکے اُسے باعزت بری کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ مقامی شخص اور مسجد کے پیش امام کو شواہد میں ردوبدل کرنے اور توہین مذہب کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس مقدمے پر بین الاقوامی برادری نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے سخت قوانین کے تحت اقلیتوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد رمشا اور اس کی فیملی کو جان کے خطرے کے پیش نظر گاؤں سے کسی محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا تھا جس کے بعد لوگ بھی اس واقعے کو بھلا بیٹھے تھے۔ گزشتہ دنوں رمشا کے حوالے سے یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ”کینیڈا کی حکومت کی جانب سے رمشا مسیح کی مذہبی تشدد کی بنیاد پر کینیڈا میں پناہ لینے کی درخواست کی منظوری کے بعد وہ اپنے والدین، 3 بہنوں اور ایک بھائی سمیت کینیڈا منتقل ہوگئی ہے جہاں کینیڈین حکومت نے خاندان کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ رہائشی سہولت بھی فراہم کی ہے۔ رمشا مقامی اسکول میں انگریزی سیکھنے کی تعلیم حاصل کر رہی ہے جبکہ اس کے رہائشی مقام کو پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کینیڈین حکومت اور سفارتخانے نے رمشا مسیح کی کینیڈا میں پناہ لینے کی تمام کارروائیوں کو انتہائی خفیہ رکھا۔
مغربی ممالک ہمیشہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی واقعہ پیش آئے اور وہ اُسے دوسرا رخ دے کر کسی طرح سے پاکستان کے خلاف استعمال کریں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح سے بھی واقعہ کی آڑ میں منفی پروپیگنڈا کرکے پاکستانیوں کو شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دلوائیں جس سے دنیا میں یہ تاثر ابھرے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے باعث اقلیتی طبقہ محفوظ نہیں۔ حالیہ واقعہ میں بھی رمشا مسیح اور اس کے خاندان کے کینیڈا میں پناہ لینے کی خبر کو مرچ مصالحہ لگاکر پیش کیا گیا اور اس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں اقلیتی طبقہ غیر محفوظ ہے اور ان کے ساتھ مذہب کے نام پر ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل بھی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے بھارت پہنچ کر اس بنیاد پر پناہ کی درخواست کی تھی کہ پاکستان میں ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے جس کے باعث وہ بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اس واقعہ کو بھارت نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں منفی تاثر ابھرا۔
مغربی ممالک خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اور مختلف فورمز پر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ واضح ہو کہ کچھ سال قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ پیش آنے والے زیادتی کے واقعہ کو مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا جس کے بعد برطانیہ نے ڈاکٹر شازیہ کو پناہ دی تھی۔ مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی جب منظر عام پر آیا تو اُسے امریکہ لے جایا گیا جہاں مختلف فورمز پر مختاراں مائی نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناروا سلوک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ خدشہ ہے کہ رمشا مسیح کو بھی کینیڈا اور امریکہ میں اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔
پاکستان میں جہاں کچھ حلقوں میں اس خبر پر اطمینان کا اظہار کیا جارہا ہے کہ رمشا اور اس کی فیملی کو جان کے خطرے کے پیش نظر کینیڈا کی حکومت نے پناہ دے دی ہے، وہاں کچھ لوگوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ اس طرح کے طرز عمل سے اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو مذہبی یا جنسی تشدد کی آڑ میں بیرون ملک پناہ حاصل کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ رمشا مسیح کو کینیڈا میں پناہ ملنے کے بعد اس بات کا خدشہ ہے کہ میراں جعفر گاؤں میں مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد بھی مذہبی تشدد کو بنیاد بناکر بیرون ممالک پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ”اگر مغربی ممالک لوگوں کی من گھڑت کہانیوں پر انہیں پناہ دینے کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو پناہ کی درخواست دینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو پاکستان کی بدنامی کا سبب بنے گا“۔ پناہ دینے والے ممالک کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں ایک آزاد عدالتی نظام موجود ہے اور عدلیہ اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے واقعات کا فوری طور پر ازخود نوٹس لیتی ہے اور انصاف پر مبنی فیصلے کرتی ہے جیسا کہ رمشا مسیح کیس میں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ توہین رسالت یا توہین قرآن کے واقعات میں آج تک کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے واقعات پر توجہ دے تاکہ مذہبی یا انسانی حقوق کی آڑ میں بیرون ملک پناہ لینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
تازہ ترین