• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیرعظم نوازشریف کے اقتدار کے پہلے ہی مہینے میں دہشت گردی کے کافی واقعات ہوئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا اپنا مخصوص ایجنڈا ہے اور یہ کہنا کہ نوازشریف طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں مقابلتاً دہشت گردی زیادہ ہوئی ہے۔ اگر ایسے واقعات سے کوئٹہ اور خیبرپختونخوا لگاتار لرز رہے ہیں اور بہت سی معصوم جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں تو شہر کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ اگر زیادہ نہیں تو کم سے کم پرانی رفتار سے توجاری ہے ۔ ان تین علاقوں کو ایک عرصے سے خون خرابہ کا سامنا ہے ۔ عام انتخابات ہونے اور نئی حکومت کے بننے سے بھی ان واقعات پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ انتخابی مہم کے دوران اور اس سے قبل بھی نوازشریف کے سیاسی مخالفین انہیں طالبان کا ہمدرد گردانتے رہے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی تمسخر اڑایا جاتا رہا اور انہیں ”طالبان خان“ کا نام دیا جاتا رہا ۔ ان کی جماعت خیبرپختونخوا میں انتخابات جیت کر اپنی حکومت بنا چکی ہے مگر اس سے بھی دہشت گردی کے واقعات پر کچھ فرق نہیں پڑا۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ہے ایک نئی نیشنل سیکورٹی پالیسی، جسے تمام اسٹیک ہولڈرز اکٹھے بیٹھ کر فوری طور پر تیار کریں ۔ نہ صرف تمام اہم حکومتی جماعتوں کے سربراہوں بلکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس سارے مشاورتی عمل میں شریک کیا جانا چاہئے تاکہ ایک متفقہ قومی حکمت عملی سامنے آسکے ۔ اگرچہ صرف ایک ماہ بڑا مختصر عرصہ ہے جس میں حکومت کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا رہا مگر پھر بھی دہشت گردی کو روکنا پہلی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے ۔ وزیراعظم جونہی اپنے پہلے غیر ملکی دورے یعنی چین سے واپس آتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس مقصد کے لئے اکٹھا بٹھائیں۔ ایسا مشاورتی عمل صرف نشستند، گفتند ، برخاستند نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی نوازشریف اور نہ ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان یا کسی دوسرے وفاقی وزیر نے خیبرپختونخوا یاکراچی میں خون ریزی کے واقعات کے بعد ان علاقوں کا دورہ کیا ہے تاکہ متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت ان ہولناک صورتحال سے کافی ”لاتعلق “ نظر آتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جو ن لیگ کی سب سے بڑی سیاسی مخالف ہے حکومت کر رہی ہے جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے پاس اقتدار ہے اگر وزیراعظم یا کوئی وفاقی نمائندہ ان علاقوں میں دہشت گردی کانشانہ بننے والوں کے زخموں پر صرف مرہم پٹی کے لئے بھی جائے گا تو پی ٹی آئی اور پی پی پی واویلہ شروع کردیں گی کہ وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے ۔ وزیراعظم ان جماعتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ خون خرابے پر قابو پانے کے لئے اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر عمل کریں اور ان وعدوں کو ایفا کریں جو انہوں نے انتخابی مہم میں کئے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت مکمل تیار ہے کہ جو بھی صوبائی انتظامیہ اس سے کسی قسم کی مدد کی طلب گار ہو گی وہ فوراً اسے فراہم کی جائے گی مگر وہ براہ راست مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی ۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وفاقی حکومت صوبائی انتظامیہ سے لگاتار رابطے میں ہے اور بہترین کوآرڈی نیشن جاری ہے مگر بلوچستان میں بھی وفاقی حکومت کوئی مداخلت نہیں کر رہی اور وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں ۔ ن لیگ ان سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی کیونکہ اس نے ہی انہیں وزیراعلیٰ بنایا ہے ۔ ان کے درمیان اچھا سیاسی اتحاد و اتفاق ہے۔
پی ٹی آئی کی نعرے بازی اپنی جگہ مگر اس کی صوبائی حکومت کے بس میں نہیں کہ وہ دہشت گردی پر قابو پاسکے اس کے لئے وفاقی امداد کی اشد ضرورت ہے مگر جب پی ٹی آئی حقیقت پسند بنے گی اور زمینی حقائق کو سمجھے گی تو پھر ہی ایسا ممکن ہو گا ۔ وزیراعظم خواہ مخواہ کا پنگا نہیں لینا چاہتے ان کی کوشش ہے کہ پی ٹی آئی اپنے جوہر دکھائے اور حالات کو بہتر کرے ۔ عمران خان کا یہ مطالبہ کہ وزیراعظم کو فوری طور پر قومی سیکورٹی پالیسی بنانے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس بلانا چاہئے درست اور بروقت ہے۔ بلاشبہ سال ہا سال سے جاری دہشت گردی پر قابو پانا کسی بھی صوبائی حکومت کے بس کا کام نہیں اس سنجیدہ مسئلے کا حل وفاقی حکومت ہی نکال سکتی ہے ۔ جہاں تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا تعلق ہے یہ مسئلہ دہشت گردی سے بالکل مختلف ہے ۔ یہ دراصل سیاسی جنگ ہے ، بھتہ خوری پر لڑائی ہے اور مافیا کی چپقلش ہے۔ جس میں سیاسی جماعتوں کے گروہ بھی ملوث ہیں ۔ کروڑوں کا بھتہ روزانہ اکٹھا کیا جارہاہے اور یہ رقم بیرون ملک بھی منتقل کی جارہی ہے جس سے مہنگی جائیدادیں خریدی گئی ہیں۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت سے یہ توقع کرنا کہ وہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہے یا کچھ ٹھوس اقدامات کرے گی احمقانہ بات ہے۔گزشتہ پانچ سالہ حکومت کے دوران کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بدمعاشی اتنی پروان چڑھی کہ جس کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ کراچی کی پولیس سیاست زدہ عملے سے بھری پڑی ہے۔ وہ بری طرح خوف کا شکار بھی ہے ۔ پراسیکیوشن نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پہلے تو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ قاتل کون ہیں اور اگر قاتل گرفتار بھی ہو جائیں تو گواہوں کو مار دیاجاتا ہے نتیجتاً مجرم عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں، پورا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی بہتری کی توقع نہیں جاسکتی۔ سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے جو بہتر تو یہی ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت ہی کرے ۔ کراچی کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ حکومت کا حصہ تھیں جب اس وقت حالات میں ذرہ برابر بہتری نہیں لائی جاسکی تو اب یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اب تو ایم کیو ایم اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ہے اگرچہ ابھی بھی اسی کا ہی گورنر (ڈاکٹر عشرت العباد ) سندھ میں موجود ہے جو حکومت سے رابطے کا کام کرتے ہیں۔ یہ کہنا کہ وفاقی حکومت سندھ میں گورنر راج لگا دے گی قبل از وقت ہے ۔ وزیراعظم نے زیادہ سے زیادہ وقت پی پی پی کو دینا ہے کہ وہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے ۔ پی پی پی کو خود سے احساس کرنا ہو گا کہ اگر کراچی میں خوف اور دہشت راج کرتی رہی تو پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ اسے کریمنل گینگز کے خلاف فیصلہ کن ایکشن لینا ہو گا ۔ جس دن اس نے کراچی میں کوئی شعیب سڈل جیسا پولیس افسرتعینات کر دیا اس دن ہی اس کی نیت بتائے گی کہ وہ حالات ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہو گئی ہے۔
آخر میں صدر آصف علی زرداری کے بارے میں چند الفاظ۔پانچ سال تک وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے مگر انہوں نے نئے تلخ حقائق سے یکدم سمجھوتہ کر لیا اور بیک سیٹ لے لی ۔ وہ وفاقی اور صوبائی سطح پر اپنی مرضی کے کیئرٹیکرز لائے تھے مگر وہ ان کی انتخابات میں کچھ مدد نہ کر سکے۔ جب سے نوازشریف وزیراعظم بنے ہیں آصف زرداری نے ان کے رستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی ۔ جونہی کوئی سمری ان کے دستخطوں کے لئے آتی ہے وہ فوراً اس کی منظوری دے دیتے ہیں ۔ ہاں البتہ وہ سیاسی ساز باز میں لگے ہوئے ہیں جس سے وزیراعظم کا نقصان ہونا کافی مشکل ہے۔ وہ کرب میں مبتلا ہیں کہ ان کے خلاف سوئٹزر لینڈ میں کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے کے لئے نوازشریف حکومت نے اپیل دائر کر دی ہے ۔ جونہی صدر اپنے سرکاری منصب سے رخصت ہوں گے انہیں پاکستان اور بیرون ملک مختلف عدالتوں کا سامنا کرنا ہو گا اور اگر سوئس عدالت میں کیس دوبارہ کھل گیا تو ان کے لئے بڑی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں پھر 60ملین ڈالر رقم کا بھی مسئلہ ہے جس کی حکومت پاکستان کو واپسی کے لئے دباؤ بڑھے گا۔
تازہ ترین