• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گیارہ مئی کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے ملک کا اقتدار سنبھال لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کو ایسے وقت اقتدار ملا ہے جب ملک اقتصادی طوفانوں کی زد میں ہے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ نوازشریف حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے لیکن پاکستان کے عوام کو نوازشریف پر مکمل بھروسہ اور یقین ہے کہ وہ نہ صرف ان بحرانوں پر قابو پالیں گے بلکہ ان کی حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرے گی۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ نوازشریف کو ابھی آئے ہوئے ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں ہوا ہے کہ ان کو ایک ایسے چنگل میں پھنسایا جا رہا جہاں سے ان کا نکلنا ہی مشکل ہو جائے اور بے چارے عوام اسی طرح ان بحرانوں کے بھنور میں پھنسے رہیں۔ میری اس چنگل سے مراد پرویز مشرف کا ٹرائل ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں سب ہی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ کیونکر دبئی اور یورپ کی خوشگوار زندگی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائے یا پھر کن عناصر نے انہیں پاکستان جانے پر مجبور کیا؟
سپریم کورٹ نے ایک ایسے وقت میں پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب ملک شدید اقتصادی اور توانائی کے بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے حملوں اور امن و امان کی خراب صورتحال سے دوچار ہے۔ اس کے اس فیصلے پر وزیراعظم نواز شریف نے چوبیس جون کو پارلیمینٹ سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والے اور پارلیمینٹ کو کالعدم قرار دینے والے آمر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے تیار ہیں۔ جس کی پارلیمینٹ میں موجود تمام ہی جماعتوں نے بھرپور طریقے سے حمایت کی لیکن میرے خیال میں یہ جماعتیں پرویزمشرف کے ٹرائل کے بارے میں ہر گز مخلص نہیں ہیں بلکہ ان کا اصل مقصد نواز شریف کو پھنسانا ہے۔ ان جماعتوں کے چہروں سے نقاب اس وقت اٹھ گیا جب ان تمام جماعتوں نے اگلے ہی روز بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہوئے صرف پرویز مشرف پر ہی نہیں بلکہ ضیا الحق ، جنرل یحییٰ اور جنرل ایوب پر مقدمہ چلانے اور 1956ء سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ ان جماعتوں اور عناصر کا اصل مقصد نوازشریف کی توجہ عوامی مسائل سے ہٹانا ہے تاکہ نوازشریف کو اپنے مرتب کردہ ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے ۔ یہ عناصر اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر اگر کوئی پارٹی گامزن کرسکتی ہے تو وہ مسلم لیگ ن ہی ہے۔ مسلم لیگ ن کا ماضی ہم سب کے سامنے ہے اس جماعت نے ملک میں اس وقت نج کاری کے نظام پر عملدرآمد شروع کیا جب جنوب مشرقی ایشیاء میں اس نظام سے کوئی باخبر ہی نہ تھا پھر اسی جماعت کے دور میں ملک میں پہلی موٹر وے متعارف کرائی اور فاصلوں کو کم کرکے رکھ دیا بلکہ پاکستان جیسے ملک میں ایک ایسی پولیس کو بھی متعارف کرایا جو آج تک رشوت جیسے دھندے سے بہت دور ہے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب ترکی کے اس دور کے وزیراعظم سیلمان دیمرل جو بعد میں صدر بھی منتخب ہوگئے تھے پاکستان کی اس دور میں ہونے والی ترقی سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے پاکستان کی ترقی کا جائزہ لینے کے لئے پہلے اپنے وفود کو پاکستان کے دورے پر بھیجا تھا اور پھرخود بھی پاکستان کے دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ ترکی نے نج کاری کے نظام کے بارے میں معلومات یکجا کرنے کے بعد ہی ملک میں نجکاری کے نظام کو متعارف کرایا تھا پھر پاکستان میں حالات نے یکسر پلٹا کھایا اور وہ پاکستان جو اس دور میں دیگر کئی ایک ممالک کے لئے مثال اور رول ماڈل بنا ہوا تھا اندھیروں کی جانب دھکیل دیا گیا۔
اس کے بالکل برعکس ترکی جو کہ پاکستان پر نگاہیں لگائے ہوا تھا، میں حالات مثبت طور پر بہتر ہونا شروع ہوگئے اور وزیراعظم رجب طیّب ایردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی(آق پارٹی) نے ملک میں اقتصادی ترقی اور نج کاری کی طرف خصوصی توجہ دی۔ ایردوان ملک میں اس وقت برسراقتدار آئے تھے جب ترکی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور ہر طرف غربت ہی غربت تھی۔ ترکی میں اگرچہ جمہوریت اس کے قیام ہی سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود فوج نے ہمیشہ ہی ملک کے تمام اداروں پر اپنی مکمل گرفت قائم کررکھی تھی۔ ایردوان سے قبل فوج کی گرفت اس ملک میں اتنی زیادہ تھی کہ اخبارات کے کالم نگار فوج کی اجازت کے بغیر کالم نہیں لکھ سکتے تھے۔ جنرل کنعان ایورن کے فوجی دور کے دوران مذہبی گھرانوں کی لڑکیاں جو کہ ہیڈ اسکارف پہنتی تھیں ان پر یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے دروازے بند کر دیئے گئے تھے، ان کو تعلیم کا حق دلوانے کیلئے اس وقت ایردوان میدان میں نکل آئے تھے اور ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان لڑکیوں سے کئے گئے وعدے تھے۔ وزیراعظم ایردوان جب پہلی بار برسراقتدار آئے تواس وقت ان کی حمایت میں37 فیصد ووٹ پڑے۔ وزیراعظم ایردوان نے اپنے اس مینڈیٹ کا خیال رکھتے ہوئے اپنے پہلے دور میں ان لڑکیوں سے کئے گئے وعدوں کو اس دور میں صرف اس وجہ سے عملی جامہ نہ پہنایا کہ ان پر صرف مذہبی جماعت ہونے کا لیبل نہ لگ جائے اور فوج موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی حکومت کا تختہ ہی نہ الٹ دے حالانکہ فوج اور بیوروکریسی نے ان کے پہلے دور ہی میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور اس وقت کی عدلیہ نے فوج کے دباؤ میں آکر اس پارٹی پرپابندی لگانے کی بھی کوشش کی تھی۔ وزیراعظم ایردوان نے بڑی عقل و دانش سے حالات کا مقابلہ کیا اور فوج کے خلاف کسی قسم کا کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا حالانکہ ان کو معلوم تھاکہ فوج ان کے خلاف مختلف سازشوں میں مصروف ہے اور ان کا کسی وقت بھی تختہ الٹا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے فوج کے اس دباؤ کا بڑی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور فوج سے الجھنے کے بجائے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایردوان نے اپنے پہلے دور کی طرح دوسرے دور میں بھی جبکہ ان کی حمایت 47 فیصد تک پہنچ چکی تھی اس وقت بھی فوج سے پنجہ لڑانے سے گریز ہی کیا۔ ایردوان کا سب سے اہم ہدف ملک کے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا تھا۔ ترکی جو اس وقت کئی یورپی ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہونے والے مظاہروں کے باوجود اپنے استحکام کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایردوان حکومت کو صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ غیر ملکی سازش کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ہمت ہے اس مردِ آہن کی جنہوں نے ہمیشہ کی طرح سینہ سپرہوتے ہوئے ان مظاہروں کا مقابلہ کیااور مزید مقبولیت حاصل کی۔
وزیراعظم نواز شریف کو بھی چاہئے کہ وہ بھی وزیراعظم ایردوان کی طرح فی الحال مشرف ٹرائل کو ایک طرف رکھ کر ملک کی ترقی کی جانب خصوصی توجہ دیں اور عوام ان سے جو توقع لگائے ہوئے ہیں ان کی توقعات کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں۔ اگر انہوں نے اپنے اس دور میں مشرف پر مقدمہ بازی کا سلسلہ شروع کردیا تو پھر ان کا اس مقدمے سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف کو معاملات کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا۔ فوج کے سابق سربراہ کو سزا دلوانے سے قبل اپنے آپ کو (وزیراعظم ایردوان کی طرح ) منوانا ہوگا۔
تازہ ترین