• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سابق عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف، میر ظفر اللہ خان جمالی کو وزیراعظم بنانے کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے الیکشن 2002ء کے بعد اپنے خفیہ کے دوستوں سے کہا کہ بلوچستان سے وزیراعظم چاہئے دوستوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی چودہ جنرل سیٹوں کا کوٹہ ہے جن میں سے صرف دو ممبر مسلم لیگ قاف کے ہیں ایک NA270 سے پیر عبدالقادر الگیلانی اور دوسرے NA266 سے میر ظفر اللہ خان جمالی، عالی مرتبت اس حد تک تو آگاہ تھے کہ میر ظفر اللہ خان جمالی وفاقی وزیر رہے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی رہے لیکن اس سے زیادہ وہ نہیں جانتے تھے لہٰذا خفیہ والوں نے انہیں بتایا کہ جمالی صاحب کے خاندان کی تحریک پاکستان میں بہت خدمات ہیں۔ ان کے تایا میر جعفر خان جمالی کا شمار قائداعظم کے بھروسے کے لوگوں میں ہوتا تھا۔ 7/اپریل 1967ء کو جب جعفر خان جمالی کا انتقال ہوا تھا تو محترمہ فاطمہ جناح نے کہا تھا کہ ”آج میرا دوسرا بھائی بھی میرا ساتھ چھوڑ گیا ہے“۔ جعفر جمالی نے بلوچستان میں مسلم لیگ کی تنظیمی سرگرمیوں کی خبر گیری کے لئے ایک ہفت روزہ بھی شروع کرایا تھا جس کی ادارت کی ذمہ داریاں ممتاز صحافی اور ناول نگار نسیم حجازی کے سپرد تھیں۔ خفیہ والوں نے اپنی بریفنگ میں جنرل پرویز مشرف کو مزید بتایا کہ قائداعظم اور جعفر جمالی میں اس قدر انسیت تھی کہ جمالی کے ایک مقدمے کی فیس لئے بغیر قائد نے وکالت کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اتنا کچھ سننے کے بعد کہا کہ اچھا ظفر اللہ جمالی سے ملاقات کراؤ ایک دو دنوں بعد جب ظفر اللہ جمالی ملاقات کر کے چلے گئے تو جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ ”نہیں یار یہ شلوار پہنتا ہے مجھے پتلون والا وزیراعظم چاہئے“ دوستوں نے کہا سر شلوار ہمارے قومی لباس کا حصہ ہے“ جنرل بولے وہ بات ٹھیک ہے مگر تم کوئی پتلون والا لاؤ۔ دوستوں نے کہا سر قائداعظم بھی شلوار پہنا کرتے تھے جنرل خاموش رہے، دوستوں نے برف پگھلتی دیکھ کر مزید کہا کہ جنرل ضیاء الحق تو شلوار پہن کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کر آئے تھے، یوں ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔ ظفر اللہ جمالی صاحب سے میرا اس وقت کا دوستانہ ہے جب وہ ضیاء الحق کے عبوری دور میں کوآپریٹو کے ڈپٹی منسٹر ہوا کرتے تھے اکثر کار خود ڈرائیو کیا کرتے، فٹ بال کا کھلاڑی ہونے کی وجہ سے اچھا خاصا دوڑ بھی لیا کرتے تھے ان کا تکیہ کلام ہے ”باس“ (BOSS) ۔ ایک دفعہ اسلام آباد کے بلوچستان ہاؤس میں ان سے ملنے گیا تو انہوں نے ویٹر کو بلا کر کہا کہ ”باس“ ذرا مزیدار سی چائے پلاؤ“۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ جمالی صاحب جنرل پرویز مشرف کو باس کہا کرتے تھے تو ان کے لئے مزید سوال کرنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
میر ظفر اللہ خان جمالی اور اعجاز الحق کو میں اکثر کہا کرتا تھا کہ میاں نواز شریف صاحب کا ساتھ نہ چھوڑنا وگرنہ سیاسی طور سے آپ کو نقصان ہوگا، اعجاز الحق نے کہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان ان کے حلقے میں مداخلت کرتا ہے اور میاں صاحب اسے منع نہیں کرتے جبکہ جمالی صاحب نے مجھے کہا تھا کہ وہ 1993ء میں بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقے NA203 جعفر آباد نصیرآباد سے آزاد حیثیت میں جیت کر لاہور گئے تھے۔ میاں شہباز شریف ملے میں نے کہا مسلم لیگی ہوں، آزاد جیتا ہوں مگر خود کو آپ کے حوالے کرتا ہوں آدھ پون گھنٹہ ملاقات رہی پھر شہباز نے کہا چلیں نواز بھائی سے ملتے ہیں وہ اس وقت ایک دوسرے مہمان خانے میں چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ بیٹھے تھے۔ شہباز شریف نے دروازہ کھولا میں ابھی اوجھل تھا کہ شہباز نے کہا بھاجی جمالی آئے ہیں“۔ انہوں نے کہا کون سا جمالی تاج؟ شہباز نے کہا نہیں ظفر اللہ صاحب!! نواز شریف نے کہا دفع کرو!! شہباز کی حالت ایک دم عجیب سی ہوگئی، میں نے اسے سہارا دیا اور دوبارہ وہیں جا کر بیٹھے جہاں سے اٹھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اجازت چاہی مگر شہباز بہت دباؤ میں تھا، بہرطور اب آپ خود ہی بتاؤ جبار مرزا مجھے نواز شریف کا ساتھ دینا چاہئے مگر کیسے؟ یہ 1997ء کی بات ہے 16 برس بیت گئے اس عرصے میں میاں نواز شریف میں اس قدر تبدیلی آ گئی ہے کہ انہوں نے میر ظفر اللہ خان جمالی کو خود اپنے ساتھ شامل ہونے کے لئے اب دعوت دی ہے۔ میاں صاحب کی یہ مفاہمانہ سیاست ملکی حالات سدھارنے میں بہت مثبت ثابت ہوگی اب تو میاں نواز شریف صاحب کی شخصیت میں اس قدر ٹھہراؤ آ چکا ہے کہ امیر مقام بھی مسلم لیگ ن میں مقام پا گئے ہیں بہت سے دیگر باہر سے آنے والے بھی اپنی جگہ بنا گئے مگر صدیق الفاروق جیسا مسلم لیگ کا حقیقی ورکر آج کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ 12/اکتوبر1999ء کو جب پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت ختم کی تو صدیق الفاروق کو گرفتار تو کیا مگر ڈھائی سال تک پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ میاں صاحب کے وزارت عظمیٰ کے عرصے میں ان کے پریس سیکرٹری اور اسپیچ رائٹر بھی رہے۔ انہیں مئی 1998ء میں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا چیئرمین لگایا گیا تو ڈولتا ہوا ادارہ اپنے پاؤں پرکھڑا ہوگیا پرویز مشرف صاحب کے دور میں ان کا زیادہ عرصہ کبھی فوجی تحویل میں، کبھی نیب والوں نے اسیر بنایا اور کبھی کراچی سینٹرل جیل میں رہے کچھ عرصہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بھی رہے، پرویز مشرف نے کارگل پر جارحیت کی تو صدیق الفاروق نے اس کے جواب میں پوری کتاب لکھ دی، پرویز مشرف نے اگر سب سے پہلے پاکستان نامی کتاب لکھی تو صدیق الفاروق نے اس کے جواب میں سرخرو کون لکھ کر منہ توڑ جواب دیا میاں نواز شریف کو جلاوطن کیا گیا تو ان کی راتیں اور دن مسلم لیگ کے دفاع میں گزریں جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو صدیق الفاروق کو گرفتار کر کے سرگودھا کی تحصیل بھلوال کی جیل میں ڈال دیا گیا، جاتے ہوئے وہ کہہ گئے کہ جبار مرزا میرے گھر کا اور بچوں کا خیال رکھنا وہ گھر بار سب کچھ بیچ کر کرائے کے گھر میں آ گیا لیکن اب مجھے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جبار مرزا خیال رکھنا کیوں کہ اب تو وہ اپنوں میں ہے اور آزاد ہے۔
تازہ ترین