لاہور میں حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب دھماکے کی انکوائری جاری ہے۔ تحقیقاتی اداروں نے بارود لانے والی مبینہ گاڑی کا پتا چلا لیا۔ گاڑی کل صبح 9 بج کر 40 منٹ پر لاہور میں داخل ہوئی یہ ہی گاڑی دھماکے کے مقام پر بھی نظر آئی تھی۔
تفتیشی ٹیموں نے جائے وقوعہ سے گاڑی کے ٹکڑے اور بال بیرنگ اکٹھے کر لیے گئے۔
ذرائع کے مطابق لاہور دھماکے میں ممکنہ طور پر استعمال ہونے والی گاڑی موٹروے کے ذریعے شہر میں داخل ہوئی۔ سیکیورٹی اداروں نے گاڑی کی تصویر بابو صابو ناکے پر سیف سٹی کیمروں سے حاصل کی۔
ذرائع کے مطابق جب گاڑی کو چیک کیا گیا تو اس میں بارودی مواد نہیں تھا۔ بارودی مواد کس مقام سے رکھا گیا اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے یہ گاڑی 2010 میں ڈکیتی مزاحمت پر چھینی گئی تھی جس کا مقدمہ گوجرانوالہ میں درج ہے۔ گاڑی کا فارنزک تجزیہ شروع کر دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ ہی گاڑی جوہر ٹاؤن میں دھماکے کے مقام پر پائی گئی اور گاڑی اور اس سے اترنے والے شخص میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے خصوصی گاڑی پر نصب کیمروں کی مدد سے دھماکے کے مقام پر گھروں کی چھتوں کا جائزہ لیا۔ تباہ شدہ گاڑیوں اور بارودی مواد کے نمونوں کو کیمروں کی مدد سے تلاش کیا گیا۔ جبکہ جیو فینسنگ کی مدد سے مشکوک کالز کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔
تفتیشی ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے لوہے، گاڑی کے ٹکڑے اور بال بیرنگ بھی جمع کر لئے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی نے مختلف شہروں میں چھاپے مار کر کئی افراد کو حراست میں لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حساس ادارے نے دھماکے کی تفتیش کے سلسلے میں لاہور ایئرپورٹ سے ایک مشکوک شخص کوحراست میں لیا ہے۔ اسے کراچی جانے والی پرواز سے آف لوڈ کیا گیا۔
اُدھر ایم ایس جناح اسپتال ڈاکٹر یحییٰ کے مطابق دھماکے کے 8زخمیوں کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔
زخمی حاملہ خاتون اور پولیس اہلکار کی حالت تشویشناک ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے دھماکے میں3 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔