• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہیں پنجاب کی سیاست کی بات چلےاورعثمان بزدارکا ذکر نہ ہو یہ کیسےممکن ہے۔وزیراعلیٰ کسی دور کا بھی تنقید و تعریف سے مبرا نہیں مگر عثمان بزدار کا معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے۔وہ آئے توانہیں تونسہ کا ایک سیدھا سادہ نوجوان سمجھ کران کے خلاف ایک میڈیا کمپین لانچ کردی گئی اور یہ سوچا کہ بس دو چار مہینوں میں فارغ ہوجائیں گے۔اس مہم میں اپوزیشن اور اتحادی پارٹیوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے کئی لوگ بھی شامل تھے جو سمجھتے تھے کہ وزارتِ اعلیٰ ان کے گھر کی لونڈی ہونی چاہئے مگر ان کے اندازے غلط نکلے ،عثمان بزدار ایک جہاں دیدہ سیاست دان کی حیثیت سے ابھر کر بڑی کامیابی سےسامنے آئے۔ منفی پروپیگنڈا ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ میڈیا کے وہ لوگ جو ان کے بدترین مخالف تھے آج وہی ان کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا والوں کے منہ سے کسی کی تعریف اور وہ بھی اس کی غیر موجودگی میں، کوئی ماننے والی بات نہیں مگریہ ہوا ہے۔ بے شک صحافیوں کا نجی محافل میں ان کی اچھائیوں کا تذکرہ کرنا ان کی اچیومِنٹ ہے۔ انہوں نے اپنی اچھائیاں بتاکر نہیں دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا۔اس معاملے میں ان کی خاموشی نے بھی اہم کردارادا کیا ہے۔ ان سے پہلے والے لوگ اپنے منہ میاں مٹھو بنتے بنتے سیاست سے آئوٹ ہوگئے۔

ان کی شخصیت کی ایک بہت خاص بات جس کااندازہ لوگوں کو پہلے نہ ہوسکایہ ہے کہ وہ جس سے ملتے ہیں وہی ان کا گرویدہہو جاتا ہے۔ اس میں شاید تونسہ کی مٹی کا بھی کچھ کمال ہے۔ اب تو خیر کورونا کا رونا دھونا چل رہا ہے مگر یہ ان کے مزاج کا حصہ ہے کہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہمیشہ ہاتھ ملانے میں پہل کرتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنی نشست سے اٹھ کر ملتے ہیں۔ نمود و نمائش کا انہیں شوق نہیں مگر اہل علم و قلم کی قدر کرناجانتے ہیں۔ صحافت کا بطور شعبہ احترام کرتے ہیں۔ جو ان کے خلاف لکھتے اور بولتےہیں ،ان کیلئے دل میں بغض نہیں رکھتے۔ کینہ پرور نہیں ہیں۔ تنقید برداشت کرنا جانتے ہیں۔ یہ خوبیاں ان کی کامیابیوں میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔

یادداشت بہت اچھی ہے، 2018 سے آج تک جتنے منصوبوں کا آغاز کیا ہے ، سب زبانی یاد ہیں، کس ضلع میں کون سی یونیورسٹی بن رہی ہے، کس ضلع میں ہسپتال بن رہا ہے، اپنے کاموں کے بارے میں اپنے اسٹاف سے زیادہ اپ ڈیٹڈ رہتے ہیں۔ پنجاب میں تعینات ایک اعلیٰ افسر کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ نے ایک نئے اقدام کے آغاز کے حوالے سے ہدایت دی مگر وہ روز مرہ کی مصروفیات کی وجہ سے اس کام پر توجہ نہ دے سکے۔ وزیر اعلیٰ سے جب ان کی دوبارہ ملاقات ہوئی تو ان کا خیال تھا کہ صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے اب کہاں یاد ہو گا کہ پچھلی ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی تھی۔ بہرحال ملاقات ہوئی، محکمے کے انتظامی امور پر گفتگو ہوئی اور میٹنگ کا وقت تمام ہوا۔ یہ اعلیٰ افسر وزیر اعلیٰ کے دفتر سے نکلنے کیلئے جب نشست سے اٹھے تو وزیر اعلیٰ نے ان سےوہی سوال کرڈالا جس کا ڈر تھا کہ آخری ملاقات میں جس عوامی اقدام کا ذکر کیا تھا اس پر کیا پیشرفت ہوئی ہے؟ ایک لمحے کیلئے تو افسر صاحب کی بولتی بند ہوگئی مگر پھر سچ بتانے میں ہی عافیت جانی۔

ان کی شخصیت کے حوالے سے جو قیاس آرائیوں کا آغاز ہوا وہ خاص طور پر اس حلقے سے ہوا جنہوں نے نہ ہی ان سے کبھی ملاقات کی اور نہ ملاقات کی کوشش۔ شاید اسی لئے ان کی پرسنالیٹی کے حوالے سے ہونے والے اکثر تجزیے حقائق کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ان کا لباس ان کی سادگی ضرور دکھاتا ہے مگر کم علمی نہیں۔ عثمان بزدارکی جو پروفائل جانتا ہے وہ ان کے تعلیمی بیک گراؤنڈ سے بھی واقف ہوگا اور وہ یہ بھی جانتا ہوگا کہ وہ بطور مبصر امریکا کا لوکل باڈیز سسٹم سمجھنے 2001 میں خصوصی دورے پر گئے اور پاکستان میں لمز جیسے انسٹی ٹیوٹس سے انہوں نے ٹریننگز حاصل کیں۔ لوکل اور بین الاقوامی سطح کے ایکسپوژر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اُنہیں خود نمائی کا شوق نہیں۔

مجھے یقین ہے کہ عثمان بزدار 5سال پورے کریں گے، ترقیاتی منصوبوں سے ان شاءاللہ پنجاب کو ماڈل صوبہ بھی بنائیں گے۔ ان کے اندر کبھی ’’میں‘‘ والا عنصر جنم نہیں لےگا۔ خدا کرے کہ ایسا نظام قائم ہو کہ لیڈر اپنی ’’میں‘‘ کو مار کر عوام کی فلاح کیلئے کام کریں اور اس کا کریڈٹ شخصیت کی بجائے سسٹم کو جائے۔جہاں تک تعلق ہے ان کا بطور ٹیم لیڈر کام کرنا تو مجھے پنجاب میں سیاسی وضع داری کی ماضی قریب میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ بزرگ سیاست دان ہوں یا نوجوان، سب کو ساتھ لیکر چلنا ثابت کرتا ہے کہ عثمان بزدارکی تربیت دور اندیش سیاستدان نے کی ہے۔ عثمان بزدار،پرویز الٰہی کے صاحبزادے کی عمر کے ہیں مگر سیاسی معاملات کی انجام دہی میں ان کے طور طریقے میں کسی قسم کی کمی بیشی نظر نہیں آتی۔ وہ ق لیگ کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں، پنجاب میں جید سیاست دانوں کو ناراض کئے بغیر اتنا عرصہ گزار دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ میرے نزدیک کسی بھی سیاسی لیڈر کی کارکردگی جانچنے کیلئے اس کے طور طریقے، اس کی شخصیت اور اس کے رہنما اصولوں کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔ صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کو لیڈروں سے ملنا چاہئے، یہ چلتی پھرتی کتابیں ہیں، چاہے وہ وفاق کی لیڈرشپ ہو یا کسی بھی صوبے کی، انہی کے زیر سایہ قومیں بنتی بھی ہیں اور جدوجہد بھی کرتی ہیں۔ اس لئے عوام کا حق ہے کہ ان کو ان کے حکمرانوں کے بارےمیں آگاہ رکھا جائے۔ان کی اچھائیاں اور برائیاں لوگوں کے سامنے رہیں۔

تازہ ترین