• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف یہ لکھا تھا کہ سسٹم جواب دے چکا ہے۔ اس پر دنیا بھر سے تبصرے، تجزیے سامنے آئے، سب سے دکھی آواز شہاب زبیری کی تھی، شہاب زبیری ایک سمجھدار کاروباری آدمی ہیں، کراچی میں رہتے ہیں، انہوں نے لاہور کی ایک شاعرہ کے ساتھ شادی کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب محبت کو اس قدر زوال نہیں تھا، صوبائی اور لسانی تعصب عروج پر نہیں تھا مگر اب تو فرقوں کی آگ بھی ہے برابر لگی ہوئی۔

صاحبو! شہاب زبیری کی فون کال پر تبصرہ بعد میں، پہلے معاشرے کی اس تصویر کا ذکر ہو جائے جس میں نفرت بولتی ہے۔ ایک صوبے کے آئی جی کہنے لگے ’’یار ہم کتنے عجیب لوگ ہو گئے ہیں، میں نے اپنے بیٹے کا رشتہ کرنا تھا، رشتے کی بات چلی تو لڑکی کے والدین پوچھنے لگے کہ آپ کون سے مسلمان ہیں؟ میں نے ان سے عرض کیا کہ مسلمان تو مسلمان ہی ہوتے ہیں، آپ لوگوں کی بات مجھے سمجھ نہیں آئی کیونکہ جو بھی ﷲ، رسولؐ اور قرآن کو مانتا ہے وہ مسلمان ہے، آپ پتہ نہیں کون سا فرق ڈھونڈ رہے ہیں۔ پھر انہوں نے فرقوں کے نام گنوانا شروع کئے تو میں نے گزارش کی کہ آپ فکر مند نہ ہوں، ہم سچے مسلمان ہیں مگر مجھے یہ بات بھول نہیں پاتی کہ ہم نے اپنے مذہب کو کیا بنا کر رکھ دیا ہے، ہمارا مذہب تو روا داری اور محبت سکھاتا ہے، یہ تو ﷲ کا آخری اور حتمی دین ہے، ہمیں حکم ہے کہ تفرقوں میں نہ پڑو تو پھر یہ سب ہم کیوں کر رہے ہیں‘‘ معاشرے کو تقسیم کر دینے والے اِن مذہبی رہنمائوں سے متعلق کیا کہا جائے کہ اب تو ان کے اور ’’کارنامے‘‘ بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ وہی نہیں جنہوں نے معاشرے کو فرقوں میں بانٹا، نفرتیں پیدا کیں، لوگوں کو لوگوں سے لڑوایا۔ بعض شکم پرستوں نے اللہ، اللہ کے رسولؐ اور رسولؐ کے پیاروں کے تذکرے کے بھی ریٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ مسلمان ملکوں کی تباہی کے زیادہ ذمہ دار یہی لو گ ہیں۔

اب آتے ہیں شہاب زبیری کی ٹیلی فون کال کی طرف۔ شہاب زبیری دکھی تھے، کہنے لگے ’’آپ کا کالم میرے سامنے ہے، آپ نے اسمبلیوں میں بیٹھنے والے کیا کیا لوگ یاد کروا دیے، مگر اب کس کس چیز کا رونا رویا جائے، باقی شعبوں کا بھی یہی حال ہے، ہم نے اپنی زندگیوں میں معاشرے کو تیزی سے بدلتے دیکھا ہے، اب ہمارا معاشرہ وہ نہیں رہاجو چالیس سال پہلے تھا، لوگوں کے کردار بھی بدل گئے، چالیس برس پہلے بستیوں میں محبتوں کا بسیرا تھا مگر آج وہاں نفرت کی آگ ہے۔ اب ہم کوئی بڑا سیاستدان، شاعر، گلوکار، کھلاڑی، خطیب، صحافی، موسیقار غرضیکہ کسی بھی شعبے میں بڑا آدمی پیدا کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔

معاشرے کو دولت کی ہوس کھا گئی، محبت کو مفاد کی آنکھوں نے چاٹ لیا، دوستیاں فائدوں کے لئے ہونے لگیں اور فائدے دوستوں کو نگل گئے۔ یہ معاشرے کا بھیانک چہرہ ہے کہ محض فائدے کے لئے دوست، دوست کو قتل کر رہا ہے، بھائی، بھائی کو مار رہا ہے، کبھی ہمارے معاشرے میں بزرگوں کا احترام مثالی تھا مگر اب ایسے ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ توبہ کرتے کرتے ہاتھ تھک جاتے ہیں، لوگ والدین کا احترام بھول گئے، ہم سیاستدانوں کو روتے ہیں، سیاستدان تو معاشرے کا عکس ہیں، پورا معاشرہ ہی دولت کا پجاری بن چکاہے، آپ کے معاشرے میں پھل فروش بھی دھوکے باز ہے، وہ اچھا پھل سجا کر ضرور رکھتا ہے مگر خریدار کے ساتھ دھوکہ کرتا ہے۔ آپ کو دودھ سمیت کھانے پینے کی تمام اشیاء میں ملاوٹ ملے گی، لوگوں نے حرام حلال میں تمیز کرنا چھوڑ دیا۔ کرپشن، بدعنوانی اور بددیانتی کی ہوا تمام محکموں میں پھر چکی ہے۔ ایک دن سرکاری افسر اور ایک کنٹریکٹر کی گفتگو ہو رہی تھی، بڑی دلچسپ گفتگو، جس میں ٹھیکیدار کہہ رہا تھا کہ ’’جی مجھے پتہ ہے کہ پانچ پرسنٹ تو محکمے کا ہے، آپ کا اس میں اور کیا ہوگا؟‘‘ جس پر وہ سرکاری افسر کہہ رہا تھا ’’دیکھئے آپ کو یہ تو پتہ ہے کہ محکمے کا پانچ پرسنٹ ہوتا ہے، اب میرا کام ہے کہ میں ایمانداری سے آپ کو کام دلوائوں، باقی ایک پرسنٹ تو میرا بھی بنتا ہی ہے نا؟‘‘ یہ گفتگو سننے کے بعد میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ فلاں محکمے کے لوگ سرکار سے تنخواہ نہیں لیتے؟ اس نے کہا لیتے ہیں۔ میں نے عرض کیا تو یہ پھر ٹھیکے میں پانچ پرسنٹ کیوں لیتے ہیں، حکومت کے تنخواہ دار؟ میرا دوست مجھ سے کہنے لگا کہ جناب بس ان سرکاری افسروں نے یہی میرٹ بنا رکھا ہے، اس کے بغیر ٹھیکہ دیتے ہی نہیں۔ دوست کی باتیں سن کر مجھے خیال آیا کہ پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم نے یہ کہا تھا کہ ’’دو پرسنٹ کمیشن تو انٹرنیشنل سطح پر تسلیم شدہ ہے اگر میں نے لے لیا تو کیا ہوا؟‘‘ جس ملک کا ایک سابق وزیراعظم ایسے خیالات کا مالک ہو تو پھر باقی لوگوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ دنیا بھر میں حرام جانور کا گوشت کھایا جاتا ہے اگر میں نے کھا لیا تو کیا ہوا؟ واہ، کیا دلائل ہیں لوگوں کے پاس، لوگ معاشرے میں پھیلی برائیوں کو نہیں دیکھ رہے، بس دولت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، وہ بھی حرام حلال کی تمیز کئے بغیر۔ بقول ناصرہ زبیری ؎

دلوں میں خوف بڑھتے جا رہے ہیں

نہ جانے کیا سے کیا ہونے چلا ہے

تازہ ترین