• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سب سے پہلے ایک اچھی خبر۔ وزیراعظم میاں نواز شریف کا مجھے منگل کے روز ایک پیغام ملا کہ وہ انشااللہ جلد ہی سود کے خاتمہ کے مسئلہ پرمشاورت کریں گے۔ دیر آید درست آید۔امید ہے کہ وزیراعظم صاحب چین کے دورے سے واپسی پراس مسئلہ کے حل کے لیے کوئی عملی اقدامات اُٹھائیں گے اور اس سلسلے میں ایسے معاشی ماہرین، بینکرز اور اسلامی اسکالرز کی ایک کمیٹی بنائیں گے جنہوں نے اسلامی معاشی نظام اور سود کے خاتمہ کے لیے کافی کام کیا ہو۔اس سلسلے میں جسٹس مولانا تقی عثمانی، جسٹس وجیہ الدین احمد، سینیٹر پروفیسر خورشید احمد، جسٹس خلیل الرحمن خان، ڈاکٹر اسد زمان، ڈاکٹر ارشد زمان، سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود،ڈاکٹر شاہد صدیقی وغیرہ کو یہ کام سونپا جائے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے باعمل تجاویز دیں تا کہ اس لعنت سے یہاں رہنے والے مسلمانوں کی جان چھوٹ سکے۔جیسا کہ میں ایک بار پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور یہی بات میں نے وزیر اعظم صاحب سے کی بھی کہ اُن سے زیادہ کسی دوسرے شخص پر پاکستان میں سودی نظام کے جاری رہنے کا بوجھ نہیں ہو سکتا کیوں کہ میاں صاحب کی پہلی حکومت کے دور میں ہی فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کو ختم کرنے کے فیصلہ پر عمل درآمد کی بجائے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ میاں صاحب کی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں آج بھی سودی معاشی نظام اور بینکاری سسٹم رائج ہے۔اب میاں صاحب کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنے کیے کا کفارہ ادا کریں جس کے لیے بہت سوں کی دعائیں اُن کے ساتھ ہوں گی۔
سود کے مسئلہ پر ہی ایک قاری نے مجھے لکھا کہ سود کا خاتمہ اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے، اس لیے جب تک اس کا کوئی متبادل مہیا نہیں ہوتا توموجودہ نظام ختم نہیں ہو سکتا۔ میں کوئی معاشی ماہر نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ سودی نظام کا کیا متبادل ہو سکتا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے منافی نہ ہو مگر مجھے اس بات کی سمجھ ہے کہ چاہے اس لعنت کا کوئی نعم البدل ہے یانہیں مگر اس کو کسی بھی بہانے جاری و ساری رکھنا ایک ایسا سنگین گناہ ہے جو قرآن کے مطابق اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے جنگ کے مترادف ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں فیصلہ یہ کرنا ہے کہ کیا کسی بھی صورت اور کسی بھی بہانے ہم اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ اگر حکومت سودی نظام کو ختم نہیں کرتی تو کیا ہم انفرادی طور پر بینکوں سے منافع اور سیونگ کے نام پر سود کھانے پر اپنے اللہ کو جواب دہ نہ ہوں گے۔ اپنی آمدن اورمنافع کی لالچ میں ہم خود بھی سود کھا رہے ہیں اور سودی نظام کو بھی تقویت فراہم کر رہے ہیں۔
ایک اور قاری نے مجھے لکھا کہ سود کیسے استحصال اور نا
انصافی کرتاہے۔ ہمارے ارد گرد کتنے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بینک سے قرضہ لیا اور سود سمیت واپس کرنے کی حالت میں نہ ہونے کی وجہ سے ایسی حالت کو پہنچ گئے کہ بس اللہ کی پناہ۔ آئے دن میڈیا میں خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بینکوں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے ہتھکنڈوں سے تنگ آ کر قرضہ دارنے خودکشی کر لی۔سود سے متعلق لکھے گئے میری حالیہ کالمز کے نتیجے میں کتنے لوگوں نے مجھے لکھا کہ کس طرح سود نے انہیں تباہ کر دیا۔ ایک خاتون معلمہ نے اپنی ایک طالبہ کی انتہائی دکھی کہانی لکھی جو اُس کے والد کے قرض اور سود کی عدم ادائیگی کی وجہ سے خودکشی سے شروع ہوئی۔ باپ کی اپنی جان لینے کے باوجود قرض مع سود واپسی کا مطالبہ کرنے والوں نے اس طالبہ اور اُس کی ماں اور دو بہنوں کی زندگی اجیرن بنا دی کیوں کہ وہ رقم واپس کرنے کے قابل نہیں تھیں۔انہیں اپنا گھر اور پڑھائی چھوڑ کر کسی جاننے والے کے سرونٹ کوارٹر میں رہنا پڑا مگر وہاں ایک بہن کے ساتھ مالک مکان کے بیٹے نے مبینہ زیادتی کر دی۔ وہاں سے نکل کریہ طالبہ اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ خاتون معلمہ کے گھر آ گئیں۔ طالبہ کو ایک نوکری کی آفر ہوئی مگر نوکری کی پیش کش کرنے والا انسانی شکل میں کوئی جانور نکلا ۔ اُس نے اس بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کرنے کی کوشش کی جس سے وہ طالبہ اس قدر پریشان ہوئی کہ اس نے بھی خودکشی کی کوشش کی۔ ای میل بھیجنے والی خاتون کے مطابق یہ طالبہ سکون کی گولیاں کھائے بغیر سو نہیں سکتی جبکہ اس کی بہنوں نے گزشتہ چار ماہ سے اپنے آپ کو ایک کمرہ تک محدود دکیا ہوا ہے۔اس خاتون کا کہنا ہے کہ اس طالبہ اور اس کی ماں بہنوں نے اپنا سب کچھ بیچ ڈالا مگر قرض اور سود کی رقم کی ادائیگی نہیں کر سکیں۔خاتون نے اس اندیشہ کا اظہار کیا کہ اُسے ڈر ہے کہ قرض اور سود کے اس بھنور سے نکلنے کے لیے ماں اور اس کی تین بچیاں کہیں اپنے جسم بیچنے یا اپنی زندگی ختم کرنے پر ہی مجبور نہ ہو جائیں۔ میں نے خاتون معلمہ کو جواب میں لکھا کہ اگر یہ طالبہ اور اُس کی ماں بہنیں مناسب سمجھیں تو وہ اپنے آپ پر ہونے والے ظلم اور قرضہ وسود کے استحصال کے متعلق اپنی کہانی چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھیں جس پر نہ صرف اُن سے انصاف کیے جانے کی توقع کی جاسکتی ہے بلکہ اُس استحصالی نظام کے خاتمہ کا بھی ساماں پیدا ہو سکتا ہے جواس طرح ہنستے بستے گھرانوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ خاتون کے جواب کا مجھے انتظار ہے۔
تازہ ترین