• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نادرا افسران، عملے اور بااثر شخصیات کی ملی بھگت سے کوئٹہ سے30ہزار جبکہ قلعہ عبداللہ نادرا آفس سے60ہزار افغان باشندوں کو شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کارڈ پر40ہزار سے لے کر2لاکھ روپے تک رشوت وصول کرکے ان غیر ملکیوں کو مقامی خاندانوں میں شامل کیا گیا۔ اس صورتحال کا انکشاف ائیر پورٹ روڈ کوئٹہ نادرا آفس کے اہلکاروں سے کی جانے والی تفتیش کے دوران ہوا ۔ ایف ا ٓئی اےنے ان شناختی کارڈوں کو بلاک کرنے کے لئے اعلیٰ حکام سے رابطہ کرلیا ہے۔شناختی کارڈ کسی بھی ملک کے باشندوں کی شناخت کے لئے ایک بنیادی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ کوئٹہ اور قلعہ عبداللہ سے تو90 ہزار افغانیوں اور ایرانیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کرنے کا اسیکنڈل سامنے آیا ہے اور ایک حساس سرحدی علاقے سے تعلق کی بنا پر یہ معاملہ بہت تشویش انگیز بھی ہے لیکن اگردقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو اس قسم کے سیکنڈل صرف کوئٹہ اور بلوچستان کے بعض دیگر علاقوں تک ہی محدود نہیں بلکہ خیبر سے لے کر کراچی تک ان لوگوں کا ایک پورا نیٹ ورک موجود ہے جو اپنے مالی اور دیگر مفادات کے لئے بغیر کسی تصدیق کے غیر ملکی باشندوں کو جعلی شناختی کارڈ فراہم کرنے کا دھندہ کررہے ہیں۔ یہ سارا کاروبار محض نادرا آفس کے بعض افسران کی مبینہ رشوت خوری کی بنا پر ہی نہیں ہورہا بلکہ اس کے پیچھے یقینی طور پر بااثر ا فراد کا ہاتھ بھی کام کرتا نظر آرہا ہے جو اب ایف آئی اے کو اس حوالے سے مزید تحقیقات کرنے سے روک رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کو اس صورتحال میں وسیع تر قومی و ملکی مفاد میں جعلی شناختی کارڈوں کے اجراء کو پوری سختی سے روکنے کے لئے ا پنی مہم کو تیز تر کرنا چاہئے ورنہ اگر وہ اس قومی دستاویز کے اجراء کو بھی محفوظ نہ بناسکتی تو پھر اس تناظر میں اب تک کی گئی ساری کارروائی بھی اکارت جائے گی اور خدانخواستہ ملکی مستقبل بھی مخدوش ہو کر رہ جائے گا۔
تازہ ترین