• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے محسوس کیا ہے کہ صرف پاکستان نہیں بلکہ برطانیہ ایسے مہذب ملک میں بھی فنکاروں کی وہ قدر نہیں جتنی ہونا چاہئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہم ان کی ذات سے بہت سی غیرحقیقی توقعات بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب لندن میں پاکستان سے آئے ہوئے ہم مہمانوں کو احسان شاہد لنچ کے لئے ایک پاکستانی یا افغان ریستوران میں لے گئے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ میز کے ایک طرف میں، عزیر احمد اور منصور آفاق (جو سلطان باہو ٹرسٹ کی طرف سے برمنگھم سے ہمارے استقبال کے لئے بطور خاص لندن پہنچے تھے) کرسیوں پر براجمان تھے اور میز کے دوسری طرف احسان شاہد، سید نصیر شاہ، جی سی یونیورسٹی کے صدر شعبہ فارسی ڈاکٹر شاہد اقبال اور وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد کی پروفیسر راشدہ ماہین ملک بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ کھانا آیا۔ ہم سب نے بہت رغبت سے کھایا مگر اس دوران پروفیسر راشدہ ماہین ملک نے اپنی کرسی کے ساتھ لٹکائے ہوئے پرس کی حفاظت کے خیال سے اسے چیک کیا تو پتہ چلا کہ پرس غائب ہے اور اس پرس میں ان کا پاسپورٹ، واپسی کی ایئرٹکٹ، دس ہزار سٹرلنگ پاؤنڈز، آئی ڈی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس ، آرمی آفیسر کی بیگم ہونے کے ناتے آرمی کا کارڈ، اے ٹی ایم کارڈ اور دوسری بہت سی اہم دستاویزات تھیں۔ اس پر ہم سب کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ اب ہمیں چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اس عظیم فنکار کی اس ہنرمندی کی دل کھول کر داد دیتے جس نے ہماری آنکھوں کے سامنے اپنے اس عظیم الشان فن کا مظاہرہ کیا کہ ہم میں سے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ حتیٰ کہ خود راشدہ صاحبہ کو بھی پتہ نہ چلا کہ جو پرس تقریباً ان کی گود میں تھا اسے کون اڑا لے گیا۔ اب بجائے اسکے کہ ہم اس عظیم فنکار کے فن کی داد دیتے اور اس کیلئے ایک قرارداد تہنیت پاس کرتے،الٹا سید نصیر شاہ نے پولیس کو فون کر دیا۔ جس کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ پندرہ منٹ میں پہنچ رہی ہے مگر ہم لوگ پانچ گھنٹے تک اس کے انتظار میں ریستوران میں بیٹھے رہے مگروہ نہ آئی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس طرح کی وارداتیں لندن میں روز کا معمول ہیں چنانچہ پولیس ان چھوٹی موٹی فنکاریوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ تاہم فون پر ایف آئی آر لکھوا دی گئی جس کے نتیجے میں برمنگھم میں سلطان باہو ٹرسٹ کے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسی وقت اپنے قونصل جنرل کو ہدایت کی کہ وہ محترمہ کو سفری دستاویز جاری کردیں۔ اللہ بھلا کرے میرے دوست عباس ملک کا کہ ان کے تعاون سے یہ کام جتنی جلدی ہونا تھا اس سے بھی زیادہ جلدی ہو گیا۔ جیسا کہ میں نے کالم کے شروع میں عرض کیا تھا کہ نہ ہم فنکاروں کی قدر کرنا جانتے ہیں اور نہ لندن والے ہماری ”قدرافزائی“ کا اندازہ تو آپ کو ہمارے واویلے اور اس عظیم فنکار کے خلاف ایف آئی آر رج کرانے سے ہو گیا ہوگا اور لندن پولیس کا اس فنکاری کو اس بنیاد پر ایزی لینے سے انکار کہ یہ تو روز کا معمول ہے۔ خود ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم ان سے یہ غیرحقیقت پسندانہ توقع باندھ بیٹھے تھے کہ موصوف دس ہزار پاؤنڈ اپنے پاس رکھ کر باقی ضروری دستاویزات کسی قریبی ڈسٹ بن میں پھینک جائیں گے چنانچہ عزیر احمد نے اس خوش فہمی کی بنا پر دو کلومیٹر ایریا میں دھرے سارے ڈسٹ بن جھانک لئے۔ تب میرے دل میں ایک اندیشہ پیدا ہوااورمیں نے انہیں اس کام سے روک دیا کیونکہ لندن میں بے گھر غریب غربا ڈسٹ بن میں کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرتے دیکھے جاتے ہیں!
کچھ عرصے سے میری تحریرمیں یہ خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ تمہید اصلی مضمون سے لمبی ہو جاتی ہے تاہم اس دفعہ میرا یہ فعل کچھ دانستہ بھی تھا۔ احسان شاہد اور منصور آفاق نے کہ دونوں میرے ہمدم دیرینہ ہیں، انگلینڈ کے پانچ شہروں کی ادبی تنظیموں کی خواہش پر میری 70ویں سالگرہ منانے کا اہتمام کیا تھا چونکہ اس کے ذکر میں خودستائی کا خدشہ ہے چنانچہ میں مختصراً آپ کو یہ بتا کر بات آگے بڑھاتا ہوں کہ لندن میں لندن یونیورسٹی کے زیراہتمام نہایت اعلیٰ درجے کی تقریب کی صدارت رضا علی عابدی نے کی جن کا ایک مزے کا جملہ آپ کو سنانا ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عطا کی تحریریں مجھے تیزدھار والی چھری کی کاٹ محسوس ہوتی تھیں اس کی وجہ تو مجھے آج پتہ چلی کہ ان کا تعلق وزیرآباد سے ہے۔ ایک تقریب کا سہرا میرے بہت پیارے دوست افتخار قیصر کے سر ہے جو کہ جنگ فورم کی صدارت میں تھا۔ یہاں درازقد اور باذوق خاتون سونیا عرفان سے ملاقات اس تقریب کا بونس تھی۔ ایک شائستہ اور باوقار خاتون! تیسری تقریب برمنگھم میں سلطان باہو ٹرسٹ کے یراہتمام تھی جس کی صدارت پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کر رہے تھے۔ سلطان باہو کے حوالے سے ایک سیمینار بھی منعقد ہوا جس میں شرکت کے لئے جی سی یونیورسٹی لاہور نے ڈاکٹر شاہد اقبال کو سرکاری طور پر برطانیہ بھیجا تھا۔ پروفیسر راشدہ ماہین ملک وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد سے تقریبات میں شرکت کیلئے برطانیہ پہنچی تھیں اور ان کے علاوہ دوسرے اسکالر حضرات نے سلطان باہو کو خراج عقیدت پیش کیا۔ سلطان باہو ٹرسٹ کے بانی بھائی پیر نیاز الحسن ہیں۔ میں کسی دوسرے کالم میں ان کے فلاحی کاموں کی تفصیل بیان کروں گا۔ یہ پیر نہ دم د رود والے ہیں اور نہ بم بارود والے بلکہ ان کا مطمع نظر حضور نبی اکرم کے عاشق سلطان باہو کی تعلیمات کے مطابق خلق خدا کی خدمت کرنا ہی اصل اسلام ہے۔ مجھے یہ شخص اپنے جناتی منصوبوں کی وجہ سے کوئی مافو ق الفطرت قسم کی چیز محسوس ہوئی۔ مجھے ڈر ہے کہ میں کسی روز ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کرلوں۔ انکے ساتھی علامہ مسعود عالم پیر صاحب کی تنظیم اسلامک ہیلپ کے چیئرمین ہیں۔ وہ عربی اور انگریزی کے علاوہ کئی دوسری زبانوں پر دسترس رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر خورشید احمد اور منصور آفاق جیسے کمیٹڈ لوگ بھی ہیں جن کے کمال سے میں برسوں سے واقف ہوں۔ یہیں میری ملاقات مولانا سید ظفرشاہ سے بھی ہوئی۔ مولانا ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں جنرل مشرف کے خلاف اس کے دور ِ عروج میں کلمہ ٴ حق کہنے کی توفیق عطا ہوئی اور اس کی پاداش میں وہ جیل میں بھی گئے۔ پیرنیاز الحسن نے منصور آفاق کی سربراہی میں ایک باہو اکیڈمی بھی بنا رکھی ہے اور میرے لئے یہ بہت بڑے اعزازکی بات ہے کہ برطانیہ میں ہونے والی تمام تقاریب میں مجھے real face of Pakistan کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ باہو اکیڈمی کا اس سال کا سلوگن تھا جو میرے حوالے سے تھا اور یوں برطانیہ کے مختلف شہروں میں اس حوالے سے بھی بات ہوئی کہ پاکستان کا اصل چہرہ تنگ نظری، جنونیت اور دہشت گردی نہیں بلکہ عطا الحق قاسمی ایسے لوگ ہیں جو پاکستان کا اصل چہرہ ہیں! (جاری ہے)
تازہ ترین