• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ بدترین بد عنوانیوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار اس کے تدارک کے لئے سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔انسدادِ بد عنوانی کا نعرہ اگرچہ مقبولیت پانے کی ایک کوشش ہو سکتا ہے لیکن یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔

پاکستان نے برطانوی سامراج کی کوکھ سے جنم لیا ۔ آرمی اور بیوروکریسی کو ان خطوط پر تشکیل دیا گیا کہ وہ عوام کو غیر ملکی بادشاہ کا فرمانبردار اور ماتحت بنا سکیں۔ قانون ساز فریم ورک بھی فلاحی ریاست کے قیام کے مقاصد سے عاری تھا۔ آغاز سے ہی تضادات نے جنم لیا۔ عیش و آرام میں مبتلا حکمرانوں نے سول بیورو کریسی اور عسکری تنظیمی ڈھانچے کی عوامی سہولیات کے مطابق تشکیلِ نو پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ بیوروکریٹک بے حسی ہی تھی جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات اور دوریوں کی وجہ بنی۔ سیاسی مقاصد کے لئے اہم عہدوںپر من پسند افراد کی بھرتیوں کی اجازت نے ریاستی اداروں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ڈھاکہ کی علیحدگی حکومتی نا اہلی اور بد عنوانی کا پہلا شاخسانہ تھی جبکہ بعد میں فوجی مداخلتوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بد عنوانی کا دوسرا سیلاب پیپلز پارٹی کے اداروں کو قومیانے سے آیا۔ نجی کاروباری اداروں کو سرکاری تحویل میں لے کر سیاسی دستبرد کے حوالے کر دیا گیاجبکہ حکمرانوں اور سرکاری افسران کے ذاتی مقاصد کے لئے کیے گئے گٹھ جوڑ نے معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔

اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے جنرل ضیاالحق نے اقتدار سنبھالا اور ملک کی تنزلی کا سفر شروع ہوا۔ اداروں کو ڈی نیشنلائز کرنے کی پالیسی نے فائدے کی بجائے مزید نقصان پہنچایا۔ اس بار قومیائے گئے اداروں کو پھر سے نجی شعبے کے سپرد کیا گیا لیکن اس میں بھی اہل افراد کی بجائے من پسند افراد کو نوازا گیا۔ شریف خاندان غیر متوقع طور پر سامنے آیا اور سیاست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا۔ فوجی مداخلتوں اور معاشی شارٹ کٹس کی وجہ سے قومی معیشت سنبھل ہی نہ پائی۔ طاقت اور پیسہ بڑی حد تک بین الاقوامی سطح پر تبدیلیوں کا باعث بنا ۔ یہاں بھی غیر قانونی ذرائع سے اضافی مالی وسائل ، اقتدار اور اثر و رسوخ کے حصول کی دوڑ نے سیاسی ، سماجی منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ استحصال ، اقربا پروری اور رشوت خوری کا یہ نظام کبھی بدلا بھی جا سکتا ہے۔ 2008اور 2013کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں 8.5ٹریلین ڈالرزبدعنوانی کی نذر ہوئے۔ 2013میں اقوامِ متحدہ میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سینئر تجزیہ کار عادل گیلانی کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اگر پاکستان بدعنوانی پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے تو اسے کسی ملک سے ایک روپیہ امداد لینے کی ضرورت نہ رہے۔ حکومتی ، نیم سرکاری اور ریاستی اداروں میں اصلاحات کے فقدان کی بدولت گزشتہ چالیس سال میں بد عنوانی ملک کے ہر شعبے میں سرایت کر گئی ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں سروے کردہ 256ٹیکس دہندگان میں سے 99فیصد کا کہنا تھا کہ رشوت کے ذریعے ٹیکس کی شرح میں کمی بیشی کروائی جا سکتی ہے۔ پولیس میں اب تک نچلی سطح پر بد عنوانی اور سیاسی اثر و رسوخ موجودہے۔ زمینوں کی ملکیت ، تعمیرات ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی تنخواہوں، کٹوتیوں اور براہِ راست رشوت کے ذریعے بد عنوانی جڑپکڑ چکی ہے۔ آج پاکستان 180 بدعنوان ممالک کی فہرست میں 117ویں نمبر پر ہے۔ ان حالات پر فی الفور قابو پالینا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔تجزیاتی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ابھی تک پی ٹی آئی نے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی کیونکہ تاحال وہ مسائل کے شناختی مراحل میں ہےجس میں سب پہلے نقصانات اور نقصان دہ شعبوں کی نشاندہی ضروری ہے۔ نظامِ حکومت کو بہتر بنانے کے لئے مضبوط اور پائیدار اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ بین الاقوامی معیارکے مطابق چلنے کے لئے جامع حکمتِ عملی اور خاصا وقت درکار ہو گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کے لئے خاصی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔ 

2018 کے انتخابات اس حوالے سے منفر د تھے کہ وہ ایک تیسری سیاسی قوت کو سامنے لائے۔ عمران خان کی حکومت سست روی، لیکن مستقل مزاجی سے چل رہی ہے۔ انسدادِ بد عنوانی کے ضمن میں تنازعات اور سراسیمگی کا پھیلناغیر متوقع نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت بد عنوانی کے خاتمے اور بحالی کے اقدامات کے حوالے سے ابتدائی مراحل میں ہے۔ قوم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ عمل بہر حال در د ناک لیکن بالآخر عوام کے لئے سود مند ہو گا۔ احتساب اور بد عنوانی کے خاتمے کے بغیر نہ صرف ماضی کی غلطیوں کو سدھارانہیں جا سکتا بلکہ مستقبل کے راستے کا تعین بھی نہیں کیا جا سکتا۔

ملکی تناظر میں دیکھیں تو ایمانداری اور قابلیت کے فروغ نے سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کیا ہے۔ چین اور پاکستان کے مابین سول اور فوجی نوعیت کے کئی معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ سی پیک اور اوبور پاکستان کو اس عالمی کردار کی طرف لے جا رہے ہیں جس کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ گوادر کو بالآخر خطے کی اہم بندرگاہ کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے چین پاکستان کا دفاعی اتحادی بن چکا ہے۔ بحری اور فضائی جنگی جہازوں کے معاہدوں کے ذریعے کسی بھی بیرونی جارحیت کو روکنے کے لئے دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان اپنی خامیوں پر قابو پانے میں کوشاں ہے۔ اگرچہ یہ مشکل وقت ہے لیکن بالآخر اس کا صلہ ضرور ملنے والا ہے۔

(مضمون نگار جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین