• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے سوشل میڈیا پر اِن دنوں خواتین کے لباس پر خوب مباحثے ہو رہے ہیں جن کا آغاز وزیراعظم کے غیرملکی خبر رساںادارے کو دیے گئے انٹرویو سے ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین کی کم لباسی مردوں کو برانگیختہ کرتی ہے اور یہ کہ مرد کوئی روبوٹ نہیں ہیں، جو اس نوع کی دلکشی کا اثر نہ لیں۔

ہمارے ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں اس طرح کی سوچ کے حامل افراد کی تعداد کسی طرح بھی ان لوگوں سے کم نہیں ہے جو اس کے برعکس سوچ کے حامل ہیں۔ بظاہر یہ اندازِ فکر اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ انسان کی جسمانی ضروریات کائناتی طور پر ایک فطری تقاضا ہیں جن سے انکار یا فرار کسی طرح بھی ممکن نہیں جن لوگوں نے اپنی روحانی ریاضتوں کے ساتھ اس سے فرار یا انکار کی کاوشیں کیں انہوں نے درحقیقت فطرت کے خلاف جنگ لڑی اور بالآخر ان کے پیرو کار اس غیرضروری مشقت میں ہار گئے۔ اس سلسلے میں رہبانیت کی ایک پوری تاریخ ہے بالخصوص مغربی کلیسا نے جو جو مشقیں کروائیں، ان کا جو انجام ہوا اس کے ہوشربا اور خوفناک بلکہ شرمناک نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ اہلِ دہر و کلیسا ہی کو کیا کوسیں، ہمارے اہلِ حرم کی جو داستانیں عصرِ حاضر کے ترقی یافتہ میڈیا کے باعث سامنے آ رہی ہیں وہ بہت سے پارساؤں کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی سمجھی جانی چاہئیں۔

جنسِ مخالف کی کشش تو رہی ایک طرف، جس میں کوئی کلام یا بحث ہی نہیں ہے، یہاں تو ان جذبات و احساسات کی بھی اس قدر فراوانی ہے کہ جنہیں غیرفطری قرار دیتے ہوئے ہمارے گلے خشک نہیں ہوتے۔ ناچیز نے محترم ڈاکٹر جاوید اقبال کی ہدایت پر ایک مرتبہ پنسلوینیا یونیورسٹی کے پاکستانی نژاد پروفیسر ڈاکٹر حفیظ ملک کا فرزندِ اقبال کے گھر پر انٹرویو کیا تھا، وہاں اس نوع کی دلچسپ بحث ہوئی، پروفیسر صاحب کا فرمانا تھا کہ میں اس سوچ یا الجھن میں ہوں کہ یہاں جسے غیرفطری جذبہ قرار دیا جاتا ہے وہ انسانی جبلت میں ابتدائے آفرینش سے موجود ہے یا اکتسابی یعنی سوسائٹی و ماحول سے سیکھا ہوا یا اخذ کردہ! اِس بحث کی طولانی کس اتفاقی نکتےپر اختتام پذیر ہوئی شاید ہماری سماجی بندشیں اس پر بھی اس سے آگے جانے کی اجازت نہ دیں، اس لئے ہم اس بحث کو یہیں پر ختم کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

آج اگر ہم دنیا کے فکری سفر کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ ایک ایسے دریا کی صورت دکھائی دیتی ہے جو خشکی و طغیانی کے ساتھ ہمیشہ سے آگے کی طرف رواں دواں دکھائی دیتاہے۔ اس میں ان گنت میدانوں اور چٹانوں کے ساتھ نشیب و فراز ہیں جن کا اولین سرا ہمیں معلوم ہے اور نہ آخری۔ کائنات کی بڑھتی ہوئی تہذیبی ترقی اور فکری خوبصورتی کے پس منظر میں ہمیں نظریۂ ارتقا پر یقین کرنا پڑتا ہے لیکن ساتھ ہی اس امر پر اظہارِ افسوس بھی ہے کہ قدامت پسندی پر استوار ماضی کا تقدس بڑھتے ہوئے انسانی شعوری ارتقا کے پائوں کی زنجیر ہے، انسانی شعور کو جمود پر آمادہ کرتا ہے۔

اس پسِ منظر میں انسانی سماج جدت و شدت کے دو دھاروں میں تقسیم ہے، ایک طرف روایتی تقدس کے پیروکارہیں جن کی سب سے بڑی ڈھارس یا جذبہ محرکہ ان کے غیرمتبدل مضبوط عقائد ہیں۔ دوسری جانب جدت کے وہ علمبردار ہیں جو روایات اور ان کے تقدس کو انسانی ترقی کا دشمن خیال کرتے ہوئے اُنہیں جڑسے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں اور ذرا پروا نہیں کرتے کہ انسانی حال اس کے جیسے تیسے ماضی کے ساتھ اٹوٹ انگ کی طرف جڑا ہوا ہے۔ اچھے مستقبل کی طرف ضرور بڑھنا چاہئے مگر ماضی سے ناتہ توڑے بغیر حکمت و دانائی پر مبنی استدلال کے ساتھ۔ اول الذکر راسخ العقیدہ اقدار و روایات کے امین طبقے کی مشکل یہ ہے کہ قدیم تقدس انہیں ماضی سے باندھے رکھتا ہےمگر تیزی سے بڑھتی ہوئی تہذیبی ترقی و آزاد روی کی فطری کشش ان کی پوشیدہ سوچ کو ابھارتی ہے جو اندر خانے عجیب طرح کی دو عملی پیدا کرتی ہے۔ یہ لوگ جو دعویٰ کریں گے بالفعل ان پر کبھی پورا نہیں اتر سکیں گے۔ ان کا سارا تقدس نظریۂ جبر پر استوار رہے گا جسے سوائے فطرت سے جنگ کے کوئی اور نام نہیں دیا جا سکے گا۔ یہ پرہیز گار ماضی کی اپنی جکڑ بندیوں کو چاہے جتنا بھی خوشنما بنا کر پیش کر لیں زمانے کی بڑھتی ہوئی تنقیدی نظر تمام تر کچا چٹھا کھول کر رکھ دے گی۔

کوئی مرد ہو یا عورت، انسانی حقوق اور آزادیوں کا پورا احترام و وقار قائم و دائم رکھتے ہوئے خوشی، مسرت یا سکون حاصل کرنا اس کا فطری حق ہے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے کی بجائےکیا یہ بہتر نہیں کہ خود کو بہتر بنایا جائے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین