• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد حسن عسکری نے ساٹھ برس قبل ادب کی موت کا اعلان کیا تو لاہور سے ناصر کاظمی کی آواز آئی، میں غزل لکھ رہا ہوں تو ادب کیسے مر سکتا ہے۔ اب ناصر غزل نہیں لکھ رہا لیکن انتظار حسین تو افسانہ لکھ رہے ہیں پھر ایسا کیوں ہوا کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں لٹریچر فیسٹیول سجا تو اردو کے ادیب اس سے بارہ پتھر باہر رکھے گئے اورجو بھولا بھٹکا دانہ اس میلے میں بار پا سکا اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ادب اور تہذیب کے اس مکالمے میں انگریزی کے لکھنے والے اور انگریزی کے پڑھنے والے ہی خود کوزہ وخودکوزہ گر ہیں۔ پاکستانی ادیب کو بین الاقوامی ادب میں پذیرائی مبارک ہو اور یہ بھی طے ہے کہ زمین پر تخلیق کے سوتے ابھی ایسے خشک نہیں ہوئے کہ اگلے چند برس میں کوئی پاکستانی لکھنے والا درجہ اول کے عالمی ادب میں گنا جائے تو اس پر تعجب کیا جائے لیکن بھائی دکھ تو یہی ہے کہ ’جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب ، تم باد صبا کہلاؤ تو کیا‘۔
فنون عالیہ میں ادب وہ ہنر ہے جس کا وسیلہ زبان ہے۔ زبان ایک تہذیب کا اظہار ہے۔ تہذیب زندہ ہو تو اس کی اپنی لغت اور اپنا لہجے مرتب ہوتے ہیں۔ یہ لغت اور لہجے ادب کے وسیلے سے آئندہ نسلوں کو پہنچتے ہیں۔ موسیقی کا وسیلہ خاموشی اور آواز سے ترکیب پاتا ہے۔ مصوری رنگ، لکیر اور روشنی کا کھیل ہے۔ رقص بدن کی حرکت کو ضابطے میں لانے سے تخلیق پاتا ہے۔ یہ سب وسیلے براہ راست دنیا بھر کے انسانوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ بنیادی تربیت موجود ہو تو لاطینی امریکہ کے رقص سے لطف اندوز ہونے والا عرب رقص سے بھی محظوظ ہو سکتا ہے۔ ڈچ مصوری میں درک رکھنے والا مغل منی ایچر کے رنگ بھی پکڑ سکتا ہے۔ مائیکل اینجلو کے مجسموں کی سطوت سراہنے والی آنکھ کے لئے ایلورا اور اجنتا کے خدوخال سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہوتا لیکن انگریزی ادب کا کیسا ہی شناور ہو میر کے ورثے کی تہہ داری کو پہنچنا باور نہیں ہوتا۔ یہ تو تہذیبوں کی خلیج کا ذکر ہے ۔ ادب کے دیوتا تو ایسے خود نظر ہوتے ہیں کہ داغ کے لئے اقبال کا مزاج سمجھنا ممکن نہیں تھا اور فیض حیات ہوتے تو افضال احمد سید یا ذیشان ساحل کے لئے ”نظم ،نظم ہوتی ہے اور نثر، نثر ہوتی ہے۔ یہ نثری نظم کیا ہوتی ہے؟“ کا پیش پا افتادہ آموختہ دہراتے رہتے۔ اس سے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ خالد حسن سے روایت ہے کہ لندن میں کسی نوجوان نے فیض اور راشد کی موجودگی میں سوال کیا کہ انگریزی میں لکھا جائے یا نہیں ۔ فیض نے کہا کہ میاں کسی زبان میں لکھو، مقصد تو لکھنا ہے ۔ راشد نے البتہ رائے دی کہ ادب اسی زبان میں لکھا جا سکتا ہے جو ادیب کے لاشعور کا حصہ بن چکا ہو۔ خاکسار اس میں ایک اضافہ کرتا ہے کہ ادب میں زبان کا معاملہ محض لکھنے والے کی افتاد طبع سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اس میں یہ امر بھی اہم ہے کہ جس معاشرت اور کرداروں کا بیان مقصودہے وہ کس زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مثال دینا چاہتا ہوں ۔
اسد محمد خان کے ایک افسانے میں ایک شوخ نوجوان لڑکی کا کردار دکھایا گیا ہے ۔ کراچی کے ایک نچلے متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس طرح دار کے بھیتر کی شوخی جاگتی ہے تو وہ بھیرویں کی معروف بندش گنگنا کر اپنا اظہار کرتی ہے ۔ ’کیسو ہے بے دردی، بنواری‘۔ اب اس لڑکی کے منہ میں ام کلثوم کے بول نہیں نکل سکتے اور نہ وہ ایلوس پریسلے کے گٹار پر تھرک سکتی ہے۔ یوں کہنے کو میلارمے نے لکھا۔ ’the perfume of sadness that remains in the heart ‘ ۔ یہی بات میر نے کہی اور نشتر ملاحظہ ہو۔
افسردگی ٴ سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
یہ شاعری ہے اور اس کا ترجمہ ممکن نہیں۔ اگر اعلیٰ ادب کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ ممکن نہیں تو اس ادبی تجربے کو ایک بالکل دوسری زبان میں پوری طرح کیسے رکھا جا سکتا ہے۔دکھ یہ نہیں کہ پاکستان کے نوجوان ادیب انگریزی میں کیوں لکھ رہے ہیں۔ زبان کا انتخاب ادیب کا استحقاق ہے۔ کسی ادیب کے لئے اپنے اظہار کے آلات کا انتخاب قابل دست اندازی فعل نہیں کہ اس پر فوجداری بٹھا دی جائے۔ ہمیں تو یہ دیکھناہے کہ اگر اردو ادب ہمارے بہترین ذہنوں کو راغب نہیں کر پائے گا توہمارااجتماعی انسانی تجربہ ضائع ہو جائے گا۔
انگریزی کے یہ لکھنے والے ہماری پہلی نسل نہیں ہیں جنہیں مغربی زبان و ادب تک رسائی ملی ہو۔ اردو ادیب سو برس پہلے انگریزی ادب تک پہنچ گیا تھا۔ تو ایسی کیا افتاد آئی کہ پاکستان کا نوجوان اردو کو سلام کر کے انگریزی کی زلف کا اسیر ہوا۔ میرا یہ کہنا ہے کہ اردو ادب اپنی معیشت سے محروم ہو گیا ہے۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا ، اردو کے بہترین ہم عصر لکھنے والوں کو لیجئے۔ انتظار حسین ، ظفراقبال اور مشتاق احمد یوسفی ، فہرست سازی مقصود نہیں ورنہ کم و بیش درجن بھر نام اور گنوا دیئے جائیں۔ ان سب کے پیچھے کم از کم نصف صدی کی ریاضت ہے اور ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو حرف مطبوعہ کی یافت سے آسودہ زندگی گزار سکے۔ ایسے میں ایک نوجوان فرنگی زبان میں دوسرے درجے کا ایک بیانیہ مرتب کرتا ہے اور اس کا پہلا ایڈیشن ایک لاکھ کی تعداد میں چھپتا ہے ۔ اسے ایک سے زیادہ براعظموں میں پڑھنے والے میسر آتے ہیں ۔ وہ دو چار کروڑ روپیہ سمیٹ کر اگلے کچھ برسوں کیلئے نچنت ہو جاتا ہے۔ اردو کے ادیب کا یہ عالم ہے کہ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں ایک ہزار کا ایڈیشن اور اسے پڑھنے والے بھی اپنے ہی جیسے مفلوک الحال۔ آج کا سچ یہ ہے کہ ریاست رجواڑے کا زمانہ ختم ہوا۔ بھوکے پیٹ حکومتوں کی طرف منہ اٹھا کے مراعات کی امید رکھنے سے انہیں تو فائدہ ہو گا جو کہنی چلانے کا فن لطیف جانتے ہیں لیکن محبوب خزاں یا زاہد ڈار سے تو یہ توقع نہیں رکھئے۔ اردو اور پاکستان کی دوسری زبانوں کی توانائی میں کلام نہیں لیکن پاکستان میں ادب ایک تمدنی ادارے کے طور پر اپنی توانائی سے محروم ہو چکا ۔
یہ درست ہے کہ ادبی روایت کو زندہ رکھنے کے لئے پڑھنے والوں کے ذوق کی آبیاری اور ذہن کی تربیت بھی ضروری ہے لیکن فن کے لئے معیشت کی پاڑ باندھنا بھی ضروری ہے۔ اردو کی دنیا میں تخلیقی حقوق کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اردو ادیب تخلیق کے معاشی پہلو پر غور و فکر کرنا اپنی شان کے منافی سمجھتا ہے۔ یہ متوسط طبقے کی غیر حقیقی سوچ ہے۔تخلیق کا معاوضہ کوئی احسان نہیں۔ تخلیقی حقوق پر اصرار ادیب کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ بطور ایک ادارہ ادب کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ ہمارا ادیب شائع ہونے کی عجلت میں ناشر کو پلّے سے ادائی پر بھی آمادہ ہے۔ اس سے ایک طرف تو غیر معیاری کتب کی اشاعت سے ادب کا مجموعی معیار مجروح ہوتا ہے اور دوسری طرف ناشر معاوضہ ادا کرنے کے خرخشے سے آزاد ہو جاتا ہے۔ جب مشرقی یورپ کے یہودی ادیبوں نے یدش زبان کے احیاء کا فیصلہ کیا تو انہوں نے یہ کام چندہ جمع کرکے نہیں کیا۔ یدش زبان بولنے اور پڑھنے والے تعداد میں کیاہوں گے۔ اردو پڑھنے والے صرف پاکستان اور بھارت میں دس کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اگر اردو لکھنے والا اپنے فن کی معیشت سے ایسا ہی بے نیازرہے گا تو کچھ برس بعد اردو پڑھنے والا بھی نفسیاتی خلا میں چلا جائے گا۔ اگر ہمارے بہترین ذہن اردو زبان سے گریزپا ہوں گے اور اس میں شہرت اور معاوضے کے چند در چند فائدے بھی پنہاں ہوں گے تو یہ زبان و ادب ہی کا نہیں ایک تہذیب کا زیاں ہو گا۔ تہذیبیں زوال پذیر بھی ہوتی ہیں اور کبھی ان کا احیاء بھی ہوتا ہے لیکن اس بیچ میں بہت سے موسم گزر جاتے ہیں ۔ نئی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔ موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے آثار تو دریافت کر لئے جاتے ہیں، کھنڈرات میں ادب کی بازیافت آج تک سننے میں نہیں آئی۔
تازہ ترین