• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوستو ! یہ گفتگو میری نہیں ڈاکٹر امجد ثاقب کی ہے۔’’وزیر خزانہ شوکت ترین نےاپنی بجٹ کی تقریر میں ایک عجیب و غریب اعلان کیا، غیر معمولی ،ناقابل یقین ،کسی نے شاید ہی ایسا اعلان کہیں سنا ہو۔ اعلان صرف اتنا تھا کہ حکومت ہر کاروباری منصوبہ رکھنے والے کوپانچ لاکھ روپے تک بغیر سود کے قرض دےگی جس میں کسان بھی شامل ہونگے۔پاکستان جب سے وجود میں آیا ،اہل ِ پاکستان سود کے خلاف مصروف ِ عمل ہے۔سود مذہبی اعتبار سے ہی نہیں آئین ِپاکستان کے تحت بھی ممنوع ہےمگرابھی تک کسی نے کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کیا۔مسجدوں ، منبروں، محرابوں ،اونچے ایوانوں ،دانش گاہوں یعنی ہر جگہ آپ کو سود کے خلاف گفتگو میں جنگ نظر آئے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں سود سے بچنا چاہئے،ہم خدااور اُس کے رسول سے جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتےمگرعملی طور پر ہر آواز ساکت رہی ۔ میرےادارے ’’اخوت ‘‘نے جب 20سال پہلےیہ کہا کہ ہم بغیر سود قرضہ دیں گے تو لوگوں نے اس کو مذاق سمجھا اور کئی نےراستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کیں لیکن تجربے سے ثابت ہوگیا کہ بغیر سود کےچھوٹے قرضے دئیے جاسکتے ہیں۔ جب اخوت نے 150ارب کےقرضے پاکستان کے 400شہروں میں دئیےتو تب کہیں جا کرلوگوں کو یقین آیا کہ یہ ایک حقیقت ہے ،یوں اخوت کا فنڈ دنیا کا سب سے بڑا قرضِ حسنہ کا فنڈبن گیا۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے ۔خدا ئے بزرگ و برتر نےموجودہ حکمرانوں کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ ا س تجربے کو ایک اصول بنا لیں یعنی اس تجربے کو اتنی وسعت دیں کہ پاکستان کا ہر شہری اس میں شریک ہو سکے کہ جس کے پاس بھی کوئی کاروباری منصوبہ ہے تو وہ بغیر سود کے قرضہ لے سکتا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ کہا کہ ہم پانچ سو ارب کا ایک فنڈ بنائیں گے اور اس فنڈ کی تقسیم اخوت جیسے اداروں کی ذمہ داری ہو گی ۔ یہ ادارے ضرورتمند لوگ ڈھونڈیں گے اوران کی اسسمینٹ کریں گے ان کی اپروول کریں گے اور انہیں خود چھوٹے قرضے پیش کریں گے۔ تیسری دنیا میں آج تک کسی ملک میں بغیر سود قرضوں کی فراہمی کااس طرح بندوبست نہیں ہوا۔بڑے بڑےکمرشل بنک کروڑوں کے قرضے دیتے ہیں، لیکن چھوٹے چھوٹے قرضے دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے،عادی نہیں ہیں۔ یہ رقم حکومت کی گارنٹی پر ان ہی بڑے بنکوں سے آئےگی اور مائیکروفنانس اداروں کو مل جائے گی۔ بے شک اس پر بھی خرچ ہوگا مگر یہ خرچ حکومت کرے گی۔جو تجربہ مجھے ہے ان قرضوں کی سو فیصد ریکوری ہے۔یہ قوم بددیانت نہیں ہے۔ یہ قوم قابل اعتماد ہے۔ اخوت کا یہی تجربہ ہے ۔منصور بھائی ! غیر معمولی تجربہ ہوا۔ماضی کے بیس سال میں، اخوت کے توسط سے۔ اس وقت بھی اخوت کے حوالے سے ہم کہتے تھے کہ مواخاتِ مدینہ کی بنیاد پر ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جس میں ہر شخص کو عزت سے زندہ رہنے کا موقع ملے۔اب دیکھئے کہ شوکت ترین جو خود ایک بنک کے مالک ہیں ، اور بڑے بڑےبنکوں کے صدر رہے، سرمایہ دارانہ نظام کو اندر سے جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ بڑے بنکوں کے ڈی این اے میں ہی یہ بات شامل نہیں کہ وہ چھوٹے قرضے دیں ۔کیا یہ اللہ کی رحمت نہیں ہے کہ اُس نے بلاسود قرضوں کے اس تصور کو باریابی کا شرف بخشا اور پھر ایک ایسا ماحول بنا دیا کہ اس میں سیاسی ولنگ نیس بھی آ گئی۔اور وسائل بھی حکومت کی طرف سے آ گئے۔ پھر بنکوں کی طرف سے تعاون بھی آ گیا۔ اورغیر سرکار ی اداروں اخوت یا اخوت جیسے اداروں کی شمولیت سے کمبینیشن بن گیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک غیر معمولی قدم ہے ۔ایک ایک قرضہ دس دس نوکریاں جنم دے گا۔ دنیامیں مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز(ایم، ایس، ایم ،ای)ا سیکٹر سے نوے فیصد ملازمتیں جنم لیتی ہیں۔ یعنی چھوٹے قرضوں سے لی گئی رقم سے جو کاروبار ہوتے ہیں ان پر جو ملازمتیں ملتی ہیں وہ نوے فیصد ہیں کسی بھی بڑی اکانومی میں۔ پاکستان اس سیکٹر میں رد شدہ ہے، تیس فیصد سے کم اس سیکٹر پر بزنس ہوتا ہے۔ اس لئے بنک قرضہ نہیں دیتے۔ تو یہ شعبہ اگر ترقی کرے گا پیسے آئیں گے، لوگوں کو تنخواہیں ملیں گی، غربت کم ہوگی،سیلف ایمپلائمنٹ ہو گی۔ اس کے علاوہ سروس انڈسٹری، مینوفیکچرنگ انڈسٹری ، پھر ایک پہلو یہ کہ لاکھوں قرضے کسانوں کو ملیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ زراعت، لائیواسٹاک، چھوٹے کاروبار میں خاص طور پر دیہاتوں میں ایک نیا افق طلوع ہونے والا ہے۔ بس حکومت اس کو کس طرح چلاتی ہے، کیسےانڈی پینڈنٹ رکھتی ہے۔ اس نظام کی تشکیل کےلئےلوگوں کو بڑی سوچ بچار کرنا پڑے گی،پانچ لاکھ کے قرضے ہوں گے، حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کا اشترک ہوگا۔چھوٹے چھوٹے ادارے جو چھوٹے قرضے دینے کی مہارت رکھتے ہیں ان کو شامل کیا جائے گا۔دیہاتوں میں کسان اور شہروں میں جو کاروبار کرنا چاہتے ہیں یہ پروگرام ان کے لئے ہے۔ یہ پروگرام جسے کامیاب پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔اس میں کامیاب کسان ہے اور کامیاب نوجوان ہے۔ ایک اور تجویز بھی ہے گھروں کی تعمیر کےلئے ،مگراس پر پھر بات کریں گے۔یہ حکومت کی ایک غیر معمولی کامیابی ہوگی اور وزیراعظم عمران خان جو کہتے ہیں کہ میں غریبوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں اور دینی اقدار کا احیا چاہتے ہیں ، سود سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تویہ پروگرام اسی خواب کی تعبیر بنے گا ۔میں بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں کسی حکومت کی طرف سے ایسا اعلان نہیں ہواکہ وہ چھوٹے قرضوں کی مد میں بھرپور مدد دے گی۔بے شک اس سے سود مکمل ختم نہیں ہوگامگر اس سے ملک میں غیر سودی نظام کی راہ ضرور ہموار ہوگی۔اس کے بعد یہ رقم دولاکھ سے پانچ لاکھ اور پانچ لاکھ سے دس لاکھ تک بڑھتی چلی جائے گی۔

تازہ ترین