• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے انکار کرکے پاکستانی قوم کے دل جیت لئے ہیںلیکن ایسے لگتا ہے کہ امریکہ کو یہ بیان ہضم نہیں ہو رہا۔ وہ اب پاکستان پر امریکی اڈے دینے کے حوالے سے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ فیٹف کے ذریعے پاکستان کو مزید کچھ عرصہ گرے لسٹ میں رکھنے کی بات کی جارہی ہے۔ مغربی میڈیا بھی اس حوالے سے پاکستان پر تنقید کر رہاہے۔حکومت کو مغربی میڈیا کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان کو اب امریکی اڈے نہ دینے کے بیان پر قائم رہنا چاہئے۔قومی سلامتی کے اس اہم معاملے میں یوٹرن ان کےلئے نئے مسائل کھڑے کر دے گا۔ قوم ان سے یہی توقع رکھتی ہے کہ وہ یہ غلطی نہیں کریں گے اور اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔ پہلے ہی ہم سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

نائن الیون کے خود ساختہ ڈرامے کے بعد امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیاتھا۔ گزشتہ بیس سالوں میں لاکھوں افغانوں کو امریکی و نیٹو افواج نے تہہ تیغ کردیا۔ اب امریکہ بیس سال بعد سوویت یونین کی طرح رسوا ہو کر وہاں سے رخصت ہو رہا ہے۔ ساٹھ فیصد امریکی واتحادی فوج کا اب تک انخلا ہو چکا ہے۔امریکی حکام خود تسلیم کر رہے ہیں کہ افغان طالبان نے ان کے انخلا میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔امریکہ کو افغانستان اور عراق کی جنگیں خاصی مہنگی پڑی ہیں۔ عراق سے تو وہ پہلے ہی نکل چکا ہے اب وہ افغانستان سے بھی فوری مکمل انخلا چاہتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان افغانستان کی جنگ کو امریکی جنگ قرار دیتے رہے ہیں اور پاکستان کو امریکی جنگ کا حصہ نہ بننے پر زور دیتے رہے ہیں۔پاکستان میں سب سے زیادہ اگر کسی نے افغانستان میں امریکی مداخلت کی مخالفت اور احتجاج کیا تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پاکستان بھر میں ’’گو امریکہ گو‘‘ کے نام سے باقاعدہ تحریک چلائی۔ جسے عوام میں خاصی پزیرائی ملی۔ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق بھی واضح طور پر حکومت کو متنبہ کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ کو دوبارہ اڈے دینے کی غلطی نہ کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی ماضی میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کیاتھا۔آج یہ بات ایک تاریخی حقیقت کے طور پر سامنے آچکی ہے کہ امریکی مداخلت کے حوالے سے پاکستانی سیاست کے انتہائی زیرک رہنماؤں قاضی حسین احمد اور سید منورحسن کا موقف بالکل درست تھا۔ ہمیں امریکی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی نہیں بننا چاہئے تھا۔ اس نام نہاد امریکی جنگ میں پاکستان کے ستر ہزار سے زائد سول اور فوجی افراد شہید ہو چکے ہیں لیکن امریکہ آج بھی ہم سے ڈو مور کا تقاضا کر رہا ہے۔جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منورحسن نے جو ’’گو امریکہ گو‘‘ تحریک چلائی تھی آج وہ رنگ لا رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے بھی امریکہ کو فوجی اڈے نہ دے کر دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے۔ سید منور حسن آج بہت یاد آرہے ہیں۔ آج سے ایک سال قبل 22جون کو وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ایسے لوگ اب معاشرے میں خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ان کی تقاریر قلب و روح میں اتر جاتی تھیں اور اپنے سننے والوں کو کچھ کر گزرنے کے جذبے پر ابھارتی تھیں۔ان کی شخصیت کا قابل ذکر پہلو یہ تھا کہ وہ ایک اصول پسند نظریاتی قائد تھے۔وہ اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے ہمیشہ حق گوئی کا مظاہر ہ کرتے اور حق پر ڈٹ جاتے تھے۔چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔ اصول پسندی سے پیچھے ہٹنا ان کی شخصیت میں شامل نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کچھ لوگ غلط فہمی سے ان کو سخت گیر شخصیت سمجھتے تھے۔حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔جو لوگ ان کو قریب سے جانتے ہیں ان کو علم ہے کہ وہ شگفتہ مزاج تھے۔وہ حاضر دماغی اور دلیل کے ساتھ اپنے مخالفین کو تسلی بخش جواب دینے کی صلاحیت رکھتے تھے اور اپنی شگفتہ مزاجی سے اختلاف کرنے والوں کے دلوں میں بھی گھر کر لیتے تھے سید منور حسن سے میری اسلامی جمعیت طلبہ کے دور سے یاد اللہ تھی۔ہم ان کی تقاریر سے علمی و فکری غذا حاصل کرتے تھے۔وہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور بعد ازاں امیر جماعت اسلامی رہے۔ان سے کئی بار تفصیلی ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔وہ ہر ایک کی بات توجہ اور محبت سے سنتے تھے۔ان کے ہاں دولت اور جاہ و جلال معیار نہیں تھا بلکہ وہ سب سے عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔

سید منور حسن کو اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں سے خاص محبت تھی۔وہ ان کی علمی و فکری رہنمائی میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔اسلامی جمعیت طلبہ،جماعت اسلامی اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی رہے گی اور ان کا خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا۔

تازہ ترین