• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی محاذ پر جوہری تبدیلی ایک بہت بڑا خواب ہے جو ہر پاکستانی کی طرح میں بھی دیکھتا ہوں اور ہر پاکستانی کی طرح میرا یہ خواب ابھی تک تشنہٴ تکمیل ہے۔سیاسی تبدیلی کے بہت سے دعویدار اور بہت سے علمبردار آئے اور آ رہے ہیں لیکن وہ اپنے اردگردکے ماحول میں تو کچھ خاص تبدیلی نہیں لا پائے ،ہاں خود ضروربدل گئے۔سچی بات ہے کہ ایسے بہت سے لوگ مجمع کے مداریوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے جو اپنا ”مقوی“ چورن بیچنے کیلئے ہر حیلہ بہانہ کرتے ہیں۔ یہ مداری آپ کو زندہ سانپوں، نیولوں، بچھوؤں کے اوپر اپنی قدرت کا دھوکہ دیں گے، آپ کو ہمالیہ کے پہاڑوں پر رہنے والے شیر کی اخلاق باختہ حرکتوں کی کہانیاں سنائیں گے، شیر کی اُن حرکتوں کے پیچھے چھپی اصل کرشماتی طاقت کا تذکرہ کریں گے آپ کو صدیوں پرانے راجوں، مہاراجوں کی ”کمزوریوں “ اور اپنے قدیم علم کے ذریعے ان کے رفع ہونے کے قصے سنائیں گے۔ وہ آپ کو چند لمحوں کیلئے اپنے سحر میں گرفتار کر لیں گے اور آپ کو یقین دلا دیں گے کہ آپ کے سارے مسائل کے پیچھے جو اصل ”کمزوری“ ہے، وہ اس کو نہ صرف دور کر کے آپ کی زندگیاں ”تبدیل“ کر سکتے ہیں بلکہ یہ کارِ خیر صرف وہی کر سکتے ہیں اور اگر آپ نے وہ کارِ خیر ان سے اسی وقت نہیں کرایا تو پھر شاید بہت دیر ہو جائے۔اس ساری کارروائی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ کی زندگیوں میں تبدیلی سے قطع نظر، ان مداریوں کی زندگی میں تبدیلی ضرور آ جاتی ہے ، وہ اپنی ”دہاڑی “ لگا کر اپنی راہ لیتے ہیں اور ان کا چورن کھا کرآپ کے اندر اتنی تبدیلی ضرور آتی ہے کہ آپ اپنے گردے ، جگر اور دل تباہ کر بیٹھتے ہیں اور اپنی ”کمزوری “ دور کرتے کرتے بہت سی مہلک بیماریاں گلے لگا بیٹھتے ہیں۔
آپ کی اور میری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کے اہم ترین فیصلے اسی قبیل کے لوگوں کے ہاتھو ں میں دے دےئے گئے ہیں اور انہوں نے ہماری زندگیوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ نا قابلِ بیان ہے۔ مشرف کے سیاہ دور کا اختتام تقریباً ہو چکا تھا اور تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں آمریت کے خلاف متحد نظر آ رہی تھیں۔ الیکشن کے نتائج کافی حد تک تسلی بخش تھے حالانکہ الیکشن سے پہلے بہت کچھ طے ہو چکا تھا لیکن تمام بڑی سیاسی قوتیں مل کر قوم کو ایک ”نئے پاکستان “ کا پیغام دے رہی تھیں۔سب نے مل کر اچھا اچھا آغاز کیا اور ہم امید لگا کر بیٹھ گئے کہ اب پاکستان کی سیاست میں ایک جوہری تبدیلی ضرور آ ئے گی، جس کی بدولت ہماری زندگیوں میں بہت بہتری آ جائے گی، تین سال میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا، مہنگائی اور بے روزگاری کم ہونا شروع ہو جائے گی، بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، معاشی حالت بہتر ہو گی وغیرہ وغیرہ۔لیکن ہوا کیا؟؟جوہری تبدیلی آئی لیکن منفی سمت میں، اتنی منفی جوہری تبدیلی کہ کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انتظامی معاملات تو بد سے بدتر نہیں بدترین سطح پر آ گئے اور کرپشن کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے گئے کہ ہاتھ کانوں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اتنی بے شرمی، اتنی ڈھٹائی، اتنی بے حسی، واقعی سیاست میں ایک بہت بڑی جوہری تبدیلی آئی۔ مرکز اور تین صوبوں میں تو لوٹ مارکی دوڑ لگی رہی اور وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مرکز، سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومتیں جیتیں یا پھر خیبر پختونخوا میں اے این پی کی حکومت آگے رہی ۔ البتہ پنجاب میں ایک تاثر بہتری کا ضرور قائم رہا، اگرچہ یہ بہتری صرف سطحی تھی۔ تھانہ، کچہری، پٹوارخانے ،اسپتال، اسکول ، ہمارے سیاسی زوال کی ان تمام علامتوں میں سے کسی ایک علامت میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ان تمام علامتوں میں مزید بگاڑ دیکھنے میں آیا۔ پنجاب کے عوام جن کا ان تمام اداروں سے واسطہ پڑتا ہے ، پِس کے رہ گئے ہیں۔ اصلاحات کی کوششیں نظر آئیں، ان کوششوں کو حقیقت سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا لیکن کیا کوئی تبدیلی آئی؟؟ بالکل نہیں۔ ایک ”اصلاح“ کا خصوصی طور پر ذکر کروں گا جو سرکاری اسکولوں میں انگریزی میڈیم رائج کر کے کی گئی۔ سرکاری اسکولوں میں انگریزی میڈیم کی کتابیں نہ کوئی پڑھنے والا ، نہ کوئی پڑھانے والا، نتیجہ جو بچے پہلے اردو زبان میں کم از کم تعلیم حاصل کر پاتے تھے ، وہ اس سے بھی گئے۔بہت سی کوششیں حکمرانوں کی ڈرامائی تشہیر کے مقصد کے حصول کا شاخسانہ نظر آئیں مثلاً سستی روٹی اسکیم، دانش اسکول، آشیانہ اسکیم، لیپ ٹاپ اسکیم، ذہین طالب علموں کے بیرون ممالک دورے۔ ان سارے کے سارے منصوبوں میں ایک بات مشترک تھی کہ ان سب سے ذاتی اور سیاسی تشہیر کا پہلو ضرور نکلتا تھا لیکن کیا ان اسکیموں سے پنجاب کے لوگوں کے روٹی، مکان اور تعلیم جیسے مسائل حل ہو گئے یا ان میں کوئی بہتری آئی ؟؟ میری رائے میں، بالکل نہیں آئی۔ درحقیقت پچھلے دورِ حکومت میں مرکز، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور کشمیر میں قائم تمام حکومتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی۔
پھر مئی کے انتخابات کا وقت آ گیا۔دو اہم سیاسی نعرے ایک دوسرے کے مقابل رہے ، ایک نعرہ ”نیا پاکستان“ کا تھا اور دوسرا نعرہ ”بدلیں گے پاکستان“ کا تھا ۔ دونوں نعروں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا،دونوں تبدیلی کا نقارہ بجا رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر ہم جیسوں کی امیدیں بندھ گئیں، ہم سوچنے لگے کہ اس دفعہ تو جوہر ی تبدیلی ضرور آ کے رہے گی لیکن معاملہ ہوا ”کھودا پہاڑ، نکلا چوہا“ والا۔ جو حکومتیں سامنے آئی ہیں نئی بوتلوں میں پرانی شراب والے محاورے کے عین مطابق ہیں بلکہ اکثر صورتوں میں تو بوتلیں بھی پُرانی ہیں ۔اب کیا ان پُرانی بوتلوں سے کسی جوہری تبدیلی کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟مجھے تو زیادہ توقع نہیں، لیکن امید کا چراغ روشن رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ جوہری تبدیلی کے حوالے سے اب ساری نظریں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں پر مرکوز ہیں ۔جہا ں دونوں صوبوں میں روزانہ کی بنیاد پر بیسیوں لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں اور اس عمل کو روکنا ان دونوں حکومتوں کے دائرہ اختیار اور قبضہ قدرت میں نہیں ہے، وہیں ان دونوں صوبوں میں گورننس کے معاملات کو بہتر کرنا، کرپشن کو لگام دینا، میرٹ اور قوانین کی بالا دستی قائم کرنا ، پولیس ، پٹوار، تعلیم ، صحت اور اس طرح کے دیگر بے شمار معاملات میں بہت بڑی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے ان دونوں حکومتوں کی اب تک کی کارکردگی بالکل بھی قابلِ قدر نہیں ہے بلکہ میں تو اس حد تک کہوں گا کہ جوہری سیاسی تبدیلی کے پس منظر میں ان حکومتوں کا آغاز خوش کن نہیں ہوا، پہلا تاثربالکل اچھا قائم نہیں ہو سکا ہے لیکن ابھی ایک لمبا سفر باقی ہے۔ ہمیں باتوں سے کوئی سروکار نہیں ،اچھی اچھی باتیں سن کر ہمارے کان پک گئے ہیں، ہمیں تو نتائج چاہئیں۔ ایسے نتائج جو ان صوبوں کے عام آدمیوں کی زندگیوں پر اچھا اثر ڈال سکیں (صرف اچھا تاثر نہیں)۔اگر ان دونوں صوبوں میں سے کسی ایک صوبے میں بھی ایسا ہو جاتا ہے ، اگر کسی ایک صوبے میں بھی ہمیں جوہری سیاسی تبدیلی نظر آ جاتی ہے تو موجودہ سخت مسابقتی سیاسی ماحول میں اس کا اثر یقینا دوسری حکومتوں پر بھی پڑے گا۔ کاش اس بار ایسا ہو جائے !!کاش اس دفعہ ہمارے تشنہ تکمیل خوابوں کی تعبیر ممکن ہو سکے!کاش، کاش، اس دفعہ ہمارا انجام مداریوں کے مجمعے جیسا نہ ہو!!
تازہ ترین