• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز بدستور امن کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کوئٹہ ، کراچی کو لہولہان کیاجارہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا بھی بم دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ ڈرون حملے بدستور جاری ہیں۔ ان خرابیوں کی نشاندہی کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ نوزائیدہ حکومتوں کے پیچھے ڈنڈا اٹھا کر لگ جایا جائے بلکہ ان حالات و واقعات اور ان کے تسلسل اور موجودہ نئے آنے والے حکمرانوں کے رویوں میں جو مماثلت ہے، اس کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔
گزشتہ حکومتوں میں بھی دہشت گردی، بم دھماکے جاری تھے۔ ٹیلی ویژن ٹکر کے ذریعے مذمت کردی جاتی تھی اور ہر واقعے کے بعد یہ بیان سامنے آتا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین رابطے کو مربوط بنا کر دہشت گردی کا خاتمہ کردیا جائے گا اور آج بھی یہی صورتحال برقرار ہے۔ پاکستان کے جو شہری آج اپنی راہ سے ہٹ گئے ہیں، ہمیں ان کو راہِ راست پر لانے کے لئے طویل المدتی و قلیل المدتی پالیسیوں کی تشکیل وسیع البنیاد مشاورت کی بنا پر کرنی ہوگی لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم فیصلہ سازی عددی اکثریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل، منطق اور دلیل کی بنیاد پر بہم مشاورت سے کریں۔ اس امتیاز کے بغیر کہ کون حکومتی بینچوں پر ہے اور کون اپوزیشن بینچوں پر۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں صحافیوں اور قلمکاروں کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گزشتہ روز جنگ کے صفحہ ادارت پر منصور آفا ق کا مضمون ”جلا وطنی کا تمغہ “ایک مثال کے طور پر پیش کیاجاسکتا ہے کہ پاکستان ہمہ جہتی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اس پر قلم آرائی نہ کرسکے لیکن الطاف حسین کے ایک بیان کی اپنے انداز میں تشریح کرنے کو ترجیح دی اور تشریح بھی ایک سیاسی ذہن کے ساتھ کی۔ الطاف حسین نے جلا وطنی خوشی سے اختیار نہیں کی بلکہ یہ بھی تاریخ سے لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اگر کسی پر پہلا خودکش حملہ ہوا ہے تو وہ الطاف حسین ہیں۔ 19جون 1992ء سے لے کر سردست جو صورتحال پاکستان بالخصوص کراچی کی ہے، اس میں ان کی جلاوطنی کا فیصلہ جو انہوں نے خود نہیں کیا بلکہ ان کے کارکنان، عوام نے کیا ہے، جس کی بنیاد پر وہ لندن میں مقیم ہونے پر مجبور ہوئے۔ برطانوی شہریت خوشی سے حاصل نہیں کی۔ منصور آفا ق صاحب ، بے نظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ بھٹو کے انجام کو شاید بھلا بیٹھے ہیں۔ رہی بات تاریخی حوالہ دینے کی تو یہ حوالے ان کو برے لگتے ہیں جو اس کا ذکر نہیں چاہتے۔ جو نہیں چاہتے کہ پاکستان جن کی قربانیوں سے حاصل کیا ہے، ان کا ذکر بھی کیاجائے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ جن نفوس نے نو آبادیاتی دور میں اپنی جانوں کے نذرانے دیئے، وہ حقیقتاً ہمارے محسن ہیں۔ الطاف حسین نے نہ تو اسکاٹ لینڈ یارڈ نہ ہی میٹروپولیٹن پولیس پر کوئی الزام عائد کیا ہے اور نہ ہی وہ عمران فاروق قتل کیس سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ان تحفظات کا اظہار کیا ہے جو میٹروپولیٹن پولیس دورانِ تفتیش رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ عمومی طور پر تو برصغیر پاک و ہند کی پولیس ہی اس قسم کے رویوں کا اظہار کرتی ہے کہ گھروں میں گھس کر سامان لے جاتی ہے اور اس کی کوئی قانونی فہرست فراہم کرنے سے اجتناب کرتی ہے اور بعد ازاں اس سامان میں اضافہ یا کمی کرکے اس کو کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایم کیو ایم کا یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ وہ عمران فاروق قتل کیس کے تمام پہلوؤں پر تحقیقاتی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہے لیکن اپنے قانونی و اخلاقی حق سے دستبردار نہیں ہوسکتی ۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ عمران فاروق قتل کیس کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں۔ لندن پولیس نے پہلے عمران فاروق کے کاروباری معاملات کا جائزہ لیا ، گرفتاریاں ہوئیں، تفتیش ہوئی اور اس کے بعد لندن پولیس نے اپنی رپورٹ کو محفوظ کر لیا۔ اب دوسرے مرحلے میں وہ اس کے ممکنہ سیاسی محرکات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اب کیونکہ عمران فاروق ایم کیوا یم کے رہنما تھے تو اس کی تحقیقات کا آغاز ایم کیو ایم سے ہی ہوگا اور یہ مرحلہ جاری ہے۔ لیکن لندن پولیس اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ اس مرحلے کی تکمیل کے بعد وہ اس قتل کے مجرمانہ محرکات و پہلوؤں کا بھی جائزہ لے گی۔ اس کے بعد اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکی تو یہ معاملہ آگے بڑھے گا لہٰذا جو محترم کالم نگار اپنے کاغذ سیاہ کر رہے ہیں اور وہ ٹیلی ویژن اینکرز جو روزانہ گھنٹے گھنٹے کا پروگرام اس موضوع پر کر رہے ہیں اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنا رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ یہ قتل لندن میں ہوا ہے، جنوبی ایشیاء میں نہیں۔ اس میں جو بھی ملوث ہوا، وہ سامنے آئے گا اور برطانیہ کے تین سطحی عدالتی نظام سے گزارا جائے گا۔ اس کے بعد کسی کے مجرم ہونے کا فیصلہ کیاجاسکتا ہے۔ گزشتہ چند روز سے پاکستان کا ہر اینکر اور اس کے پروگرام کے شرکاء الطاف حسین کو کبھی عمران فاروق قتل سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی دیگر معاملات میں الجھا کر عوام کو گمراہ کیاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ایم کیو ایم کی پینتیس سالہ تاریخ دیکھ لیں جب سے ایم کیو ایم نے غریب اور متوسط طبقے کو سیاست میں شامل کیا ہے، اسے الجھا کر رکھنے کی ایک منظم کوشش جاری ہے اور یہ بھی اسی کوشش کا حصہ ہے۔
الطاف حسین کے بیان کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرنے کی کوشش مناسب نہیں ہے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ برطانیہ سمیت دنیا کی بہت سی بڑی طاقتوں نے بہت سے ممالک میں آزادی کی تحریکیں شروع کی ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی بھی کوششیں کیں۔ نو آبادیاتی نظام کے خالق کی حیثیت سے انہوں نے ہر خطے میں اپنا اثر چھوڑا ہے۔ یہ بات قیاس سے باہر ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں جن کی بہت سے ممالک میں دلچسپی رہی ہے، وہ برطانیہ کی کسی ایجنسی سے مل کر کوئی سازش شروع کر رہے ہوں یا بین الاقوامی ایجنسیاں اس موضوع کو اٹھا کر پاکستان کے اندر بے چینی پیدا کرنا چاہتی ہوں کیونکہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر غیر مستحکم ہوچکا ہے اور انتظامی طور پر بھی بڑی کمزور حالت میں ہے کہ جو چاہتا ہے ڈرون اٹیک کردیتا ہے۔ ہیلی کاپٹر ملک میں داخل ہو کر کسی غیر ملکی کو قتل کرکے اس کی لاش بھی لے جاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں بم دھماکے معمول بن چکے۔ گردنیں کاٹنے کا عمل ثقافت بنتا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں خاکم بدہن اس ملک کو نقصان پہنچانا مشکل نہیں اور اگر اس صورتحال میں الطاف حسین کی زندگی کو خدانخواستہ نقصان پہنچتا ہے تو یہ ناقابل تلافی ہوگا لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ لندن پولیس اسکاٹ لینڈ یارڈ کو کام کرنے دیں۔ ایم کیوا یم کے تعاون کو سامنے رکھیں۔ اگر اس میں کوتاہی ہے تو اس پر رائے زنی کی جاسکتی ہے لیکن خیالات اور دیومالائی کہانیوں کی بنیاد پر خواب کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
تازہ ترین