• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے گزشتہ کالم میں عرض کی تھی کہ پیر نیاز الحسن صاحب کے حوالے سے چند مزید باتیں آپ کے گوش گزار کروں گا۔ اس کے بعد مجھے کچھ دلچسپ باتیں بھی آپ سے کرنا ہیں لیکن اس سے پہلے اللہ کے اس نیک بندے کا ذکر ہوجائے جو حضرت سلطان باہو کی اولاد میں سے ہیں۔ پیر سلطان نیاز الحسن قادری ایک بالکل سادہ سے انسان ہیں، ان کے چہرے پر زہد و تقویٰ کی کوئی”تیوری“ نظر نہیں آتی اور نہ ماتھے پر پرانے روپے کے سکے کے سائز کا محراب نظر آتا ہے۔ بس ایک نورانی سا چہرہ ہے جسے دیکھ کر خدا کی رحمتیں یاد آجاتی ہیں جو ان انسانوں پر ہوتی ہیں جو اس کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔ میں بہت حیران ہوا اور کچھ دیر کے لئے میں نے انہیں پیر ماننے سے انکار کردیا جب انہیں ہر کام اپنے ہاتھ سے کرتے دیکھا، پیر تو ایسے نہیں ہوتے، ان کا کام خدمت کرانا ہے، لوگوں کے ہاتھ پاؤں ان کے لئے بنے ہیں، یہ عجیب پیر ہیں الٹا ان کی خدمت کررہے ہیں ،ان کی اسلامک ہیلپ تنظیم ا ب تک ضرورت مندوں پر اربوں روپے خرچ کرچکی ہے، دنیا کے انیس غریب ممالک میں ان کی تنظیم کے دفاتر ہیں جو وہاں غرباء میں مفت خوراک، رہائش اور صاف پانی فراہم کرتے ہیں۔ پانچ ہزار سے زائد یتیموں کی کفالت اس کے علاوہ ہے۔ یہ تنظیم بیماریوں کے خلاف بھی جہاد کرتی ہے اور تعلیم کے فروغ کے لئے صرف برطانیہ میں ان کے بائیس تعلیمی ادارے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار کام ہیں جن کے لئے پیرصاحب اور ان کے رفقاء نے خود کو وقف کیا ہوا ہے۔ مجھے اس موقع پر فارسی کی ایک مثنوی یاد آرہی ہے جس کا اصل متن پیش کرنے سے بہت سی باتیں رہ جائیں گی۔ یہ مثنوی غالباً سلیم کاشانی یا نظیر ی نیشا پوری کی ہے۔ ترجمہ پیش خدمت ہے، یہ ان لوگوں کے نام ہے جو اپنے محبوب سے عشق کرتے ہیں اور اس کے کاموں کی پیروی کرتے ہیں۔
ایک صحرا نورد نے جنگل میں
مجنوں کو اکیلا بیٹھے دیکھا
وہ انگلیوں کو قلم بنا کر
ریت پر
لیلیٰ کا نام لکھتا جاتا تھا
صحرا نورد نے پوچھا
اے پاگل
تم یہ کیا کررہے ہو؟
کوئی خط لکھ رہے ہو
اگر خط لکھ رہے ہو
تو کس کے نام لکھ رہے ہو؟
تم اس کے لکھنے میں جتنی بھی
محنت کرو
ہوا کا ایک جھونکا
تمہاری ساری محنت پر پانی
پھیر دے گا!
صحرا تو ریت کی تختی ہے
جس پر کوئی عبارت دائمی نہیں
مجنوں نے کہا
میں تو صرف لیلیٰ کا نام لکھ رہا ہوں
میں تو اس کے نام کی مشق کررہا ہوں
مجھے صحرا کی تیز ہواؤں سے کیا کام
وہ تو میرے عشق کو چھو بھی نہیں سکتیں!
مجھے یہ مثنوی اچھی لگی تھی سو میں نے یہاں اس کا آزاد ترجمہ پیش کردیا۔یہ مثنوی دنیا کے ان تمام لوگوں کے نام معنون ہے جو اپنے عشق کا صلہ طلب نہیں کرتے اور نہ اس امر کی پرواہ کرتے ہیں کہ صحرا کی ہوائیں انہیں بے نام کردیں گی۔
اور اب ایک بار پھر واپس برطانیہ کے دوسرے شہروں کی تقریبات کی طرف! ایک بہترین تقریب نیو کاسل میں منعقد ہوئی جس کے مدارالمہام ممتاز صنم اور اپنے طارق احمد تھے۔ طارق احمد میرے لاہورئیے دوست ہیں، بہترین ادیب اور کالم نگار ہیں۔ میرے نزدیک بطور کالم نگاران کا حق بنتا ہے کہ ان کا نام مین اسٹریم کے کالم نگاروں کے ساتھ لیا جائے۔ تقریب سے پہلے ایک تقریب طارق احمد کے گھر پر تھی اور یہ بھی لاجواب تھی اس میں نیو کاسل کی کریم موجود تھی۔ یہاں میری سالگرہ کا جو کیک کاٹا گیا وہ کتاب نما تھا اور کسی اچھی کتاب کی طرح لذیذ بھی تھا اور جہاں تک مرکزی تقریب کا تعلق ہے وہ نیو کاسل کے کیمونٹی سنٹر میں منعقد ہوئی۔ ہال حاضرین سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ تقریب کے کمپیئر حضرات ہر مقرر اور ہر شاعر کی ا ٓمد سے پہلے انہیں اختصار سے کام لینے کی درخواست پر پندرہ منٹ فی اعلان صرف کرتے ہیں۔ یہاں طارق احمد کا خوبصورت کالم اور بہت سی خوبصورت شاعری جن میں منصور آفاق کی مجھ پر لکھی محبت میں ڈوبی ایک نظم بھی شامل تھی، سننے کو ملی۔ میں اپنی اس خوشی پر قابو نہیں پاسکتا اور یوں لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تقریب کے اختتام پر میری سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر ہیپی برتھ ڈے کا گانا”کورس“ میں گایا! اور ہاں طارق احمد کی بیگم کو طارق احمد ہی کی بیگم ہونا چاہئے تھا ، ویسی ہی زندہ دلی، خوش مزاج اور مہمان نواز۔
اس بار گلاسگو تقریباً پندرہ بیس برس بعد جانا ہوا ورنہ اس سے قبل برادرم مکرم # ڈاکٹر شفیع کوثر جو گلاسگو کے”ادبی پوپ“ ہیں کی تقریبات میں آنا جانا رہتا تھا۔ اس بار ایک نئے دوست شیخ محمد اشرف سے ملاقات ہوئی، حالانکہ خاصے دراز قد نوجوان تھے لیکن دانا آدمی تھے۔ ان کے دوست ڈاکٹر راشد بھی مجھے بہت پیارے لگے۔ یہ پیارے کا لفظ آپ کو عجیب تو نہیں لگا؟ اگر لگا ہے تو گلاسگو کا سفر اختیار کریں اور اگر میں نے غلط کہا ہے تو براہ کرم مجھے آگاہ فرمائیں۔ شیخ احمد اشرف نے ہم سب دوستوں کو اپنے وسیع و عریض ولا میں ہر طرح کی سہولتوں اور میزبانی کی انتہاؤں کے درمیان مصروف رکھا۔تقریب بھی بہت اعلیٰ درجے کی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک چرچ میں تھی یہاں متعدد اہل ذوق دوستوں کے ساتھ ملاقات ہوئی جن میں اپنے ڈاکٹر شفیع کوثر، ملک غلام ربانی اور بہت سے دوسرے دوست تھے۔ شوکت بٹ بیمار تھے چنانچہ ان کی عیادت کے لئے ہم لوگ ان کے گھر گئے۔ یہاں مشاعرہ بھی زوروں پر تھا اور سالگرہ کی تقریب بھی۔ شیخ محمد اشرف ایک فعال انسان ہیں، اگرچہ ایک بڑے بزنس مین ہیں لیکن ادبی سرگرمیوں میں جان ڈالے ہوئے ہیں۔ انہیں یہاں محترمہ راحت زاہد،ایسی خوبصورت شاعرہ کا تعاون حاصل ہوگیا اور یوں گلاسگو میں ادبی سرگرمیاں اکٹھی ہوگئیں۔یہاں میری سالگرہ کا کیک میری تصویر پر مبنی تھا۔ میں نے جب چھری ہاتھ میں پکڑی تو سمجھ نہیں آئی کہ اپنا کون سا حصہ بصورت کیک کھاؤ ں،پھر میں نے اپنی ناک کو نشانہ بنایا جو مجھے ہر ایسے کام سے روکتی ہے جس سے ناک کٹنے کا اندیشہ ہو، سو میں نے یہ روز روز کا ٹنٹنا ہی ختم کردیا۔
اور جو پانچ دن ہم سب لوگوں نے لیک ڈسٹرکٹ کے تفریحی مقام پر گزارے، وہ ہم سب کی زندگی کا ناقابل فراموش حصہ ہیں۔ یہاں احسان شاہد نے ہمیں امریکی، جاپانی، پاکستانی،، اطالوی اور چینی کھانے اپنے ہاتھوں سے بنا کر کھلائے اور اس سے پہلے وہ جو ٹیبل سجاتے تھے اس پر دنیا بھر کی ساسیں اور سلادیں اپنا جلو ہ دکھارہی ہوتی تھیں۔ ورڈ ز ورتھ یہیں کا تھا اور یہاں آکر اس کی فطرت سے محبت کا پس منظر معلوم ہوتا ہے، یہاں سے لندن واپسی ہوئی تو اپنے کالج کے کلاس فیلو اور خوبصورت شاعر اعجاز احمد اعجاز کے گھر پہنچے ۔
اس روز وہ میرے استقبال کے لئے گھر سے باہر نہیں آیا تھا کہ وہ وہاں جا چکا تھا جہاں سے کوئی وہاں کی خبر دینے بھی واپس نہیں آتا۔ بھابھی پہلے ہی بیمار رہتی تھیں ، اعجاز کی جدائی سے ان پر غم کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑے ہیں۔
جس روز مجھے واپس پاکستان آنا تھا اس دوپہر کو لندن کی ممتاز شخصیت چودھری عبدالمجید نے اپنے محل نما گھر میں میرے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا تھا۔ یہاں میری ملاقات جہاں دیگر عمائدین شہر سے ہوئی وہاں دو علمائے کرام سے مل کر بھی دل کو بے پناہ مسرت ہوئی۔ ان میں ایک مولانا عبدالحق ہاشمی اور دوسرے علامہ جعفر بلال برکاتی تھے۔ اس مسرت کا ایک سبب ان دونوں علمائے کرام کی علم و ادب سے گہری وابستگی تھی ۔ہمارے قدیم علماء میں یہ ذوق پایا جاتا تھا مگر اب یہ خال خال ہی نظر آتا ہے۔ مولانا عبدالحق ہاشمی نے تو مجھ سے اپنی محبت کا ثبوت اپنی ایک خوبصورت نظم سے بھی دیا۔ ایک عالم دین کی طرف سے یہ تحفہ مجھے بہت قیمتی محسوس ہوا۔
اور اب اگر آپ پوچھیں کہ ان دو ہفتوں میں ذمہ داریوں کا سب سے زیادہ بوجھ کس نے اٹھایا تو وہ احسان شاہد تھے۔ احسان شاہد شاعر اور بزنس مین ہی نہیں بلکہ کیمونٹی میں ایک فلاحی کارکن کی حیثیت سے بھی بہت نیک نام ہیں۔ برطانیہ میں ہزاروں کلو میٹر کار کا سفر ان کی ڈرائیونگ میں ہم نے طے کیا ، انسانیت اور دوستوں کی خدمت کے حوالے سے ان میں بھی ایک چھوٹا سا پیر نیاز الحسن چھپا ہوا ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ پیر صاحب کے عظیم الشان منصوبوں میں بھی ان کا ہاتھ بٹائیں۔ میں آخر میں اس دورے کے”مین آف دی میچ“ کا اعلان کرنا چاہتا ہوں اور وہ احسان شاہد تھے جن کے بغیر شاید ہم اس دورے کو محض مشقت سمجھتے۔ اسے پوری طرح انجوائے نہ کرسکتے۔ آخر میں ایک تصحیح ،شروع میں، میں نے غلطی سے لکھ دیا ہے کہ یہ تقریبات میری70 ویں سالگرہ کے حوالے سے تھیں، براہ کرم تصحیح فرمالیں ان تقریبات کا تعلق میری17ویں سالگرہ سے تھا، میں تین ماہ پہلے سترہ سال کا ہوا ہوں۔
اور اب قارئین کے لئے شعیب بن عزیز کی ایک تازہ غزل کا تحفہ
کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا
مرا بصرہ مرا بغداد مولا
بہت دکھ سہہ لیا اہل حرم نے
بہت دن رہ لیا ناشاد مولا
بہت سے شاد و فرحاں پھر رہے ہیں
ہمارے ساتھ کے برباد مولا
ہمارے حال کی بھی کچھ خبر لے
ہمارے دل بھی ہوں آباد مولا
یہاں بھی کھیتیاں سرسبز ہو جائیں
ادھر بھی آئیں ابر و باد مولا
ہمارے دکھ جبینوں پر لکھے ہیں
بیاں ہم کیا کریں روداد مولا
علی اصغر بہت چھوٹے تھے ہوگی
علی اکبر کو شاید یاد مولا
تو کیا ہم اپنی باری لے چکے بس
تو کیا ہم اب ہیں رزق یاد مولا
تو کیا یہ سب بساط رنگ و مستی
بچھے گی اب ہمارے بعد مولا
تو کیا یہ ہمدمی دائم رہے گی
یہ غم ہے کیا میرا ہمزاد مولا
ہمارے چاہنے والے ہمیں اب
نہیں دیکھیں گے کیا دلشاد مولا
یہ جان و مال میرے تجھ پر صدقے
تیرے محبوب پر، اولاد، مولا
مرے لاہور پر بھی اک نظر کر
ترا مکہ رہے آباد مولا
تازہ ترین