• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان تبدیلی کے لئے اقتدار میں لائے گئے تھے اور الحمدللہ اپنا وعدہ پورا کرکے وہ ہر طرف تبدیلی ہی تبدیلی لے آئے ہیں۔ اکثر تبدیلیاں ایسی ہیں کہ وہ ہمیں تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مثلاً پرانے پاکستان میں صرف اپوزیشن احتجاج کیاکرتی تھی۔ وہ اسمبلی امور چلانے نہیں دیتی تھی لیکن حکومت صبر سے کام لے کر، منت ترلہ کرکے پارلیمنٹ کو خوش اسلوبی سے چلانے کی کوشش کیا کرتی تھی تاہم تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ اب حکومتی اراکین اسمبلی کے اندر سیٹیاں بجاتے، نعرے لگاتے اور ہلڑ بازی کرتے ہیں۔یہ تبدیلی نہیں تو اور کیا ہے؟

اسی طرح پرانے پاکستان میں ہر ایشو پر ہر وزیر ایک سی رائے دیا کرتا تھا کیونکہ پارلیمانی نظام میں ہر وزیر کی رائے حکومت کی رائے سمجھی جاتی ہے تاہم نئے پاکستان میں وزیراعظم پارلیمنٹ کے فلور پر کہتا ہے کہ اسامہ بن لادن شہید ہے۔ ان کے وزیر خارجہ نہ ان کو شہید کہتے ہیں اور نہ دہشت گرد، وہ خاموشی اختیار کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں لیکن وزیر اطلاعات جو حکومت کے ترجمان بھی ہیں، اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ گویا جتنے منہ، اتنی پالیسیاں۔ اب کیا یہ معمولی تبدیلی ہے؟پرانے پاکستان میں کشمیر کو سب سے زیادہ اہم اور سنجیدہ ایشو سمجھا جاتا تھا اور کشمیر سے متعلق ہر منصب سنجیدہ ترین اور بڑے قد کے لوگوں کے سپرد کیا جاتا تھا لیکن نئے پاکستان میں کشمیر کی وزارت علی امین گنڈا پور کے سپرد ہے جن کو یہ بھی علم نہیں کہ کلبھوشن یادیو پاکستان میں ہے یا نہیں۔ انہیں یہ تک علم نہیں کہ عالمی عدالت انصاف کیا ہے اور کہاں واقع ہے حتیٰ کہ ٹی وی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ کلبھوشن یادیو کو نواز شریف نے بھگا دیا ہے۔کیا یہ معمولی تبدیلی ہے؟

پرانے پاکستان میں جب کسی وزیر مشیر کی نااہلی ثابت ہو جاتی تھی، تو پھر اس کی مستقل چھٹی ہو جاتی تھی لیکن نئے پاکستان میں کچھ عرصہ بعد اس کو دوبارہ اس سے اہم وزارت مل جاتی ہے۔ مثلاً اسد عمر کو ہٹاکر عمران خان نے عملی ثبوت دیا کہ وہ اس منصب کے لئے نااہل ہیں لیکن چند ماہ کے بعد ان کو دوبارہ اور اس سے بھی اہم یعنی پلاننگ کی وزارت دے دی جس طریقے سے اسد عمر کو بےتوقیر کرکے رخصت کیا گیا، اگر پرانے پاکستان کے باسی ہوتے تو زندگی بھر پھر اس وزیراعظم اور اس حکومت کے قریب بھی نہ جاتے کیونکہ پرانے پاکستان میں شرم و حیا بھی ہوا کرتی تھی۔ جب اسد عمر کو ہٹایا گیا تو اگلے روز جیو نیوز کے پروگرام رپورٹ کارڈ میں ایک تجزیہ کار نے تجزیہ کیا کہ اسد عمر اس بےعزتی کے بعد پی ٹی آئی میں نہیں رہیں گے لیکن اس طالب علم نے رائے دی کہ وہ کہیں نہیں جا سکتے اور اسی تنخواہ پر کام کریں گے کیونکہ عمران خان اور ریاستی سرپرستی کے بغیر وہ یونین کونسل کے رکن بھی نہیں بن سکتے۔ بدقسمتی سے میری وہ رائے درست ثابت ہوئی اور کچھ عرصہ بعد منت ترلہ کرکے انہوں نے دوبارہ وزارت حاصل کرلی۔ اب کیا یہ معمولی تبدیلی ہے؟

اسی طرح پرانے پاکستان میں غیرملکی شہری ایم پی اے، ایم این اے بھی نہیں بن سکتے تھے کیونکہ پاکستانی قانون میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ غیرملکی شہریت کے حامل لوگ اسمبلی، سینیٹ یا پھر صوبائی اسمبلی کے ممبر نہیں رہ سکتے لیکن عمران خان نے نصف درجن امریکی اور برطانوی شہریت کے حامل افراد کو سرکاری مناصب دیے۔پرانے پاکستان میں دوست عرب ملکوں کا اقامہ رکھنا بھی ناقابلِ معافی جرم تھا۔ ملک کے وزیراعظم نواز شریف کو دوست عرب ملک کے اقامہ کی بنیاد پر نااہل کردیا گیا جبکہ خواجہ آصف اور احسن اقبال کے خلاف صرف اس بنیاد پر عمران خان غداری کا مقدمہ بنانا چاہتے تھے۔ دوسری طرف برطانیہ اور امریکہ کی شہریت کے حامل لوگوں کے ذریعے امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، ایران اور اسرائیل جیسے ممالک کے ساتھ حساس معاملات کو ڈیل کیا جا رہا ہے۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ یہ ففتھ جنریشن وار اور سائبر وار کا دور ہے اور یہ کہ پاکستان اس وقت ان محاذوں پر حملوں کی زد میں ہے لیکن غیرملکی شہریت کی حامل ایک خاتون کو لاکر ہمارے ہاں ڈیجیٹلائزیشن کے معاملات اُن کے سپرد کئے گئے۔ پرانے پاکستان میں کوئی وزیراعظم ایسا کرتا تو پاکستان کے اصل حاکم انہیں سیکورٹی رسک ڈکلیئر کرکے باہر پھینک چکے ہوتے لیکن نئے پاکستان میں اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جارہا۔ اب کیا یہ معمولی تبدیلی ہے؟

پرانے پاکستان میں اگر کسی حکومتی عہدیدار کو کسی الزام کے تحت فارغ کیا جاتا تو پھر اس کے معاملات کی تحقیقات بھی ہوتیں لیکن یہاں افتخار درانی کو ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر فارغ کیا گیا لیکن آج تک قوم نہیں جانتی کہ انہیں فارغ کیوں کیا گیا؟ قوم کو کچھ پتہ نہیں کہ انیل مسرت وزیراعظم کے آگے پیچھے کیوں نظر آتے تھے اور پھر کیوں غائب ہوئے؟ ندیم بابر کو غیرملکی شہریت کے باوجود مشیر کیوں بنایا گیا تھا اور کیوں فارغ کیا گیا؟ پرویز مشرف، نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں میں مزے لوٹنے والے یوسف بیگ مرزا کو حکومتی عہدہ کیوں دیا گیا۔ پھر انہیں کیوں فارغ کیا گیا اور اب ایک بار پھر وہ بغیر سرکاری نوٹیفیکیشن کے کس حیثیت میں وزیراعظم ہائوس میں بیٹھ کر میڈیا کے معاملات دیکھ رہےہیں۔پرانے پاکستان میں گرمی میں بجلی کی قلت ہوا کرتی تھی اور سردی میں گیس کی لیکن نئے پاکستان میں ہم نے سردی میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ دیکھی اور اب گرمی میں گیس کی لوڈشیڈنگ دیکھ رہے ہیں۔ ایک طرف ہمیں وزیر مشیر بتا رہے ہیں کہ نواز شریف حکومت نے پاور پلانٹس لگا کر اتنی زیادہ بجلی پیدا کی ہے کہ اگلے دس سال بھی ان کو پوری طرح استعمال میں نہیں لایا جاسکتا لیکن دوسری طرف پورے ملک میں لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا حرام کردیا ہے۔ اب کیا یہ معمولی تبدیلی ہے؟

تازہ ترین