• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوا یہ کہ میری بائیں ٹانگ میں کسی قسم کا درد بیٹھ گیا ہے جو جانے کا نام نہیں لیتا۔ ٹانگ کا پچھلا حصہ دکھتا ہے اور زیادہ چلوں تو پنڈلی میں تکلیف ہوتی ہے۔ آخر وہی کرنا پڑا جو لاکھ چاہتا تھا کہ نہ کروں۔ ہاتھ میں چھڑی سنبھالی اور کچھ بوجھ اُس پر ڈال دیا ہے۔ اس سے کافی سہولت ہو گئی ہے مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ چلنے والی چھڑی میرے ہاتھ میں آتے ہی وہی جادوئی چھڑی بن جائے گی جس کا ذکر قصے کہانیوں میں سنتے آئے تھے۔
جوں ہی میں چھڑی اٹھا کر چلا، میرے سامنے کے سارے منظر بدل گئے۔ وہی معاشرہ جہاں میں چالیس سال سے آباد ہوں، بدلا بدلا نظر آنے لگا۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہر ایک مجھ پر مہربان ہو گیا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کی نگاہوں میں شفقت نظر آنے لگی۔ سامنے سے آتے ہوئے لوگ رُک کر راستہ دینے لگے۔ میں شاپنگ کا تھیلا اٹھائے اپنے اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا، ہر ایک نے پیشکش کی کہ میرا تھیلا وہ اٹھالے گا۔
ابھی ایک شام برادرم عطا الحق قاسمی کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے ٹرین میں سفر کیا۔ وہ دفتروں کی چھٹّی کا وقت تھا اور گاڑیاں مسافروں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں چھڑی ٹیک کر جوں ہی ٹرین میں داخل ہوا، کئی مسافر اپنی نشستیں چھوڑ کر میرے لئے کھڑے ہوگئے۔ ہر ٹرین میں داخلے کے دروازے سے لگی جو نشستیں ہوتی ہیں ان پر پہلے ہی لکھا ہوتا ہے کہ اگر کوئی حاملہ خاتون، بوجھ اٹھائے ہوئے مسافر یا چھڑی ٹیک کر چلنے والا شخص ڈبے میں داخل ہو تو ان نشستوں پر پہلا حق اس کا ہے لیکن مجھے دیکھ کر دوسری نشستوں کے مسافر بھی مجھے بیٹھنے کی دعوت دینے لگے۔ اس سے پہلے جب میں اسٹیشن میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ نیچے جانے والی خود کار سیڑھی مرمت کی وجہ سے بند ہے اور مجھے ایک منزل اوپر جاکر لفٹ لینی ہو گی۔ میں اوپر جانے کے لئے زینہ چڑھنے ہی والا تھا کہ عملے کے ایک شخص نے میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا کہ اوپر جانے کے لئے لفٹ موجود ہے، اس کے ذریعے جائیے۔ لفٹ میں داخل ہونے کے امیدوار بہت تھے، مجھے آتا دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گئے اور میرے لئے راستہ صاف کر دیا۔
یہی منظر سڑک پر پیدل چلتے ہوئے دیکھنے میں آتا ہے۔ میں سڑک پار کر رہا ہوں تو سارا ٹریفک ٹھہرنے لگتا ہے۔ میں جب تک پار نہ اتر جاؤں، کار والے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ میں شکریہ ادا کروں تو اس کا مسکرا کر جواب ضرور دیتے ہیں اور جب میں پار اتر جاتا ہوں یا کسی کی پیش کی ہوئی نشست پر بیٹھ جاتا ہوں یا سفر ختم کرکے ٹرین سے اتر جاتا ہوں تو میرے سوچنے کا عمل ختم نہیں ہو جاتا۔ ذہن سوچتا رہتا ہے اور ایک ہی خیال دوسرے تمام خیالات پر حاوی آجاتا ہے، یہ خیال کہ علم انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے، مہذب ہونا کسے کہتے ہیں، تہذیب یافتہ قومیں کیسی ہوتی ہیں، اخلاق کا لباس پہن کر لوگ کتنے بھلے نظر آنے لگتے ہیں۔ علم کی دولت لباس یا وضع قطع سے نہیں، رویّے اور طرز عمل سے اپنے ہونے کا اظہار کرتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ انسان کے سینے میں دردمندی کا جذبہ اسے کیسا ہمدرد اور کتنا دکھ سکھ کا ساجھے دار بنا دیتا ہے۔
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، اخبار میں پڑھا کہ ایک خاتون اپنے بچّے کو اُس کی گاڑی میں لٹا کر ٹرین پر چڑھ رہی تھیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ٹرین کے خودکار دروازے بند ہونے سے پہلے ایک سیٹی جیسی آواز نکالتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ دروازے بند ہورہے ہیں، اب کوئی اندر جانے کی کوشش نہ کرے۔ وہ خاتون بچّے کی گاڑی دھکیلتی ہوئی ٹرین میں عین اُس وقت داخل ہونے لگی جب دروازہ اپنے بند ہونے کی سیٹی بجا رہا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بچے کی گاڑی تو اندر چلی گئی اور ماں باہر رہ گئی۔ دروازہ بند ہو گیا اور گاڑی چل پڑی۔ ادھر ماں شور مچانے لگی اور ڈبّے کے اندر مسافروں نے بچّے اور اس کی گاڑی کو سنبھال لیا۔ اس دوران اسٹیشن کے عملے نے اگلے اسٹیشن کے عملے کو ٹیلی فون پر خبردار کر دیا۔ اگلے اسٹیشن کا عملہ بچے کی گاڑی کو اپنی تحویل میں لینے کے لئے تیار ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر مسافروں اور عملے نے مل کر بچے کی گاڑی احتیاط سے نیچے اتاری اور پیچھے آنے والی ٹرین کا انتظار ہونے لگاجس میں والدہ صاحبہ تشریف لائیں اور سب کو اطمینان نصیب ہوا۔ سب سے زیادہ اطمینان اُس بچّے کے حصے میں آیا جو پورے وقت غافل سوتا رہا اور اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوئی کہ اتنی دیر میں اس پر اور اس کی ماں پر کیا گزری۔ یہ کہنے کو ایک واقعہ ہے لیکن ایسے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں، کچھ دیکھنے میں آتے ہیں، کچھ آکر گزر جاتے ہیں اور کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا۔
لیکن یہاں ایک اور واقعے کی طرف اشارہ ہوا تھا، اس کا ذکر بھی ہوجائے تو بات مکمل ہو۔ ہمارے سرکردہ مصنف، کالم نگار اور شاعر عطا الحق قاسمی خیر سے ستّر برس کے ہوئے اور ان کی سالگرہ لندن میں منائی گئی۔ ان کے مداحوں کا جمِ غفیر شریک ہوا اور نہایت شگفتہ اور شائستہ گفتگو ہوئی۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے اقتباس پڑھ کر سنائے اور اپنے کچھ اشعار بھی پڑھے البتہ شکایت سی کی کہ نثر نگاری ان کو شعر گوئی کے لئے فرصت نہیں دیتی۔ ہم نے کہا کہ شعر تو بہتیرے لوگ کہہ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو نثر پیچھے رہی جارہی ہے۔
آپ نثر لکھ رہے ہیں، شاید آپ کو خود بھی خبر نہیں کہ یہ اردو کے حق میں ایک نیکی ہے جو آپ سے سرزد ہو رہی ہے۔ خدا کرے آپ کی عمر دراز ہو اور اسی بہانے ہماری نثر بھی بڑی عمر پائے۔ بہت پیچھے بیٹھی ہوئی ایک خاتون کی کمزور سی آواز آئی،آمین۔
تازہ ترین