• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
22سالہ دھان پان سی لڑکی آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کیا اور دنیا میں تیسری اور پاکستان میں اس دنیا کے بلند ترین پہاڑ پر چڑھنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہے۔ اس کا نام ہے ثمینہ بیگ، شمشال گاؤں کی رہنے والی ہے۔ ابھی فرسٹ ائیر میں پڑھ رہی تھی کہ بھائی کی حوصلہ افزائی پر اس لڑکی نے بھی ماؤنٹرنگ شروع کردی۔ پہلے کے ٹو کو فتح کیا اور پھر بھائی کے ساتھ نیپال گئی۔ 19مئی کا وہ تاریخی دن تھا جب ثمینہ نے ماؤنٹ ایورسٹ کو فتح کیا۔21دن میں سرخروئی کیسے حاصل کی۔ بھائی ساتھ تھے، وہ ہر لمحے پر اس کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ آخری بیس کیمپ کے بعد بھائی نے کہا ”اب تم اکیلی اوپر چڑھوگی۔ وہ لڑکی جس نے پیروں میں ڈھائی کلو کے برفانی جوتے پہنے ہوئے تھے، اس نے ہمت کی اور تین دن بعد ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن گئی۔ جس وقت وہ اوپر پہنچی تو بیس کیمپ میں موجود غیرملکی کوہ پیماؤں نے نہ صرف تالیاں بجائیں بلکہ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ ثمینہ کی آنکھیں فرط مسرت سے چھلک پڑیں۔ بھائی بہن کو موقع دینا چاہتا تھا کہ وہ پہلی پاکستانی خاتون بنے اور پاکستان کو یہ اعزاز نصیب ہوا۔ اتنی اہم خبر میڈیا نے ایسے دی جیسی کوئی عام خبر ہو۔
آپ پوچھیں گے یہ شمشال کہاں ہے۔ یہ گلگت کا ایک گاؤں ہے۔ جب سے گلیشئر نے نہر بنادی ہے، یہ لوگ اپنے گاؤں کشتی کے ذریعہ پہنچتے ہیں۔ بس یہ وہی لوگ ہیں جو کوہ پیماؤں کے ساتھ پورٹر بن کر جاتے ہیں اور اتنا اسٹیمنا بن جاتا ہے کہ سامان اٹھانے کے باوجود پہاڑوں پہ ایسے چڑھتے ہیں جیسے سیدھی سڑک پر جارہے ہوں۔ شکر ہے خدا کا کہ وزیر اعظم نے ثمینہ کو بلاکر شفقت سے پیار کیا اور 2.5 ملین روپے دے کر حکومت کے فخر کا اظہار کیا مگر یہ کافی نہیں۔ اس کو تو 14/اگست کو ستارہ امتیاز ملنا چاہئے اور پی آئی اے کے رسالے کے فرنٹ پیج پر ثمینہ کی تصویر مع انٹرویو کے شائع ہونی چاہئے کہ لوگوں کو کوہ پیمائی کا شوق بھی پیدا ہو۔ دوسرے ملکوں کے سیاح اتنی آسانی سے نیپال سے ایورسٹ کی جانب چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ملک میں جو پہاڑی سلسلے ہیں ان کی جانب بھی غیرملکی سیاح رخ کریں۔ کے ٹو پہ چڑھنے کے لئے بہت لوگ بے قرار ہوتے ہیں مگر اول تو ویزے کی سختیاں اور پھر خیر سے ہمارے پورٹرز ہی سیاحوں کو لوٹنے کا عام کاروبار کرتے ہیں۔ ان سارے معاملات کو قابو میں لانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر مثبت اقدامات کئے جائیں۔ ہمارے ملک میں بہت سی ثمینہ بیگ چھپی ہوئی ہیں ان کو منظر عام پر لانے کے لئے سیاحت اور کوہ پیمائی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے مگر کیا کریں کہ گلگت دیامیر کے علاقے میں 10غیرملکیوں کے بے دردی سے قتل کے بعد دوسری پہاڑیوں پر بھی موجود کوہ پیماؤں کو واپس اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے۔ ایک اور خوش کن خبر ہی کیا ہم سب نے تو ٹی وی پر آنکھوں سے دیکھا ہے کہ عائشہ فاروق، لڑاکا طیارہ اڑانے والی پہلی خاتون پائلٹ ہیں۔ توقع ہے کہ تازہ خون بھی شامل ہوگا اور نئی لڑکیاں آگے بڑھیں گی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے اسلام آباد آرہی تھی۔ ایک خاتون پائلٹ نے میرے پاس آکر کہا ”مجھے خوشی ہے میں آپ کو اڑا کر لے کر جاؤں گی“۔ میں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور مجھے آج تک اس کا فقرہ جب بھی یاد آتا ہے۔ میں نہال ہوجاتی ہوں۔
ابھی خوشیوں کا قافلہ چل رہا ہے مگر ملک سے باہر۔ خلا میں چینی خاتون نے وہاں سے بیجنگ میں موجود طلبا و طالبات سے خطاب کیا اور اپنے تجربات بیان کئے۔ اس سے پہلے امریکی خاتون نے بھی خلا سے اسی طرح خطاب کیا تھا۔ چینی خاتون خلا باز نے حیرت اور مسرت کے جذبات کے ساتھ کہا کہ ”میں نے خلا سے 19مرتبہ سورج نکلتے دیکھا ہے“۔اگلے دن ویمن کمیشن نے ڈنر دیا، اس میں بہت سی نئی پارلیمنٹیرین اور سینیٹ کی ممبران بھی شامل ہوئیں۔ اس میں خوشی کی بات یہ تھی کہ بے شمار 24، 25سال کی لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ میں نے پوچھا ”کہاں پڑھتی ہو“۔ بولیں ”ہم تو ایم این اے ہیں“۔ حیرت اور خوشی سے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پتہ چلا یہ سب کسی کی بھانجی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بھتیجی ہیں۔ کیوں نہ ہوں اگر خیبر پختونخوا میں جہاں تبدیلی کے نعرے والے لوگ آئے ہیں۔ وہاں خواتین سیٹوں پر وزیر اعلیٰ نے اپنی بھاوج، اس کی بہن اور بیٹی کو نامزد کردیا ہے۔ یہی کچھ سندھ میں ہوا، پنجاب کا تو حال ہی نہ پوچھیں کہ وہاں خادم اعلیٰ کی حکومت میں نگہت شیخ جیسی ممبرز آئی ہیں، کوئی فرق نہیں ہے وحیدہ شاہ اور نگہت شیخ میں کہ ان سب کے سر پر ممبر شپ سوار ہوتی ہے۔
کہا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت، عمران خان کے نعروں کے مطابق تبدیلی لائے گی۔ اچھی تبدیلی ہے کہ اب تک حکومتی ڈھانچہ مکمل نہیں ہوا۔ کفایت شعاری اتنی ہے کہ وزیر اعلیٰ ایک رشتہ دار کی شادی میں شرکت کے لئے ہیلی کاپٹر پر گئے جبکہ وزیر اعظم نے اپنے دفتر میں لگے لنگر کو بند کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ ایسے احکامات پہلے بھی دیئے گئے مگر اثر بالکل نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ اب پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں بھی سارے افسر ہماری طرح اپنا کھانے کا ڈبہ لے کر آئیں گے۔ مجھے تو لغاری صاحب کا صدارتی دفتر بار بار یاد آتا ہے جہاں وہ بیٹھے ہوئے زبردست بادام اورکاجو پھنکیاں مار مار کر کھاتے رہتے تھے اور مہمانوں یعنی ہم جیسے ملازمین کو پوچھتے بھی نہیں تھے اور ہمارے وزراء، منسلک اداروں کو کم ازکم 5ہزار کا بل، ہر ایک کو ادا کرنے کے لئے بھیج دیتے تھے جس میں انار کے جوس سے لے کر لنچ باکسز کے بل تک شامل ہوتے تھے۔ خدا کرے اب یہ سلسلہ منقطع ہوجائے۔ سارے وزراء، بگٹی صاحب کی طرح ہوجائیں جوکہ اپنا پانی اور کافی دونوں گھر سے لے کرآتے تھے۔ کبھی انہوں نے دفتر کے اکاؤنٹ میں چائے بھی نہیں پی تھی۔ وزراء کے علاوہ ان کے سیکرٹری بھی کمال ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ ہر دفتر سے ایک ایک گاڑی منگوا کر اپنے گھر اور وزیر کے گھر کا دال آٹا منگواتے ہیں ۔ میں یہ سب کچھ جگ بیتی نہیں، ہڈ بیسی سنا رہی ہوں۔
تازہ ترین