• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی بیس برس قبل کی بات ہے راقم کو کچھ عرصہ یونیورسٹی کالج لندن میں گزارنے کا موقع ملا۔ یوں تو سب ہی استاد اپنی، اپنی جگہ اچھے تھے مگر میڈم ڈورتھی طلبہ کی حوصلہ افزائی میں یکتا تھیں جو ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خوبی تلاش کر لیتیں اور اگر نہ ہوتی تو ایجاد کر لیتی تھیں اور ہم بلاوجہ اپنے آپ کو یکتائے روزگار سمجھنے لگتے تھے۔ ایک دن اسائنمنٹ واپس کرتے ہوئے کہنے لگیں ”مسٹر سید! تمہارا ہینڈ رائٹنگ بہت اچھا ہے“ ہم نے ”تھینک یو“ بولا تو گویا ہوئیں، اس سے کام نہیں چلے گا۔ ویک اینڈ پر کوئی خاص مصروفیت تو نہیں؟ ہمیں بھلا کیا مصروفیت ہونی تھی اور اگر ہوتی بھی تو میڈم کی خاطر دائیں، بائیں کی جا سکتی تھی۔ بولیں تو پھر گیارہ بجے صبح میرے اپارٹمنٹ پر آنا، کچھ ضروری کام ہے۔ حسب پروگرام یونیورسٹی کے قریب ہی واقع ان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو گویا منتظر تھیں اور ایک بڑے ہال نما کمرے میں جا بٹھایا جہاں ہر طرف کاغذ، کپڑے، کارڈ، جوتوں اور جیولری کے ڈبّے اور نہ جانے کیا کاٹھ کباڑ بکھرا پڑا تھا۔ معذرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ یہ سارا کھدرا میں نے خود ہی ڈالا ہوا ہے، ہفتے عشرے میں سمٹ جائے گا۔ دراصل الفریڈ (محترمہ کی واحد اولاد) کی شادی ہے اور وہ کل ہی نیروبی سے پہنچ رہا ہے۔ تم ایک فیور کرو یہ کارڈز اور گیسٹ لسٹ اٹھاؤ اور لفافوں پر مہمانوں کے پتے لکھ دو۔ آغاز تم اپنے نام سے کر سکتے ہو۔ اب ہم سمجھے کہ ہماری ہینڈ رائٹنگ کی تعریف کیوں ہو رہی تھی۔ عرض کی یہ کام کمپیوٹر اور بھی زیادہ نفاست کے ساتھ کر سکتا تھا۔ بولیں اوہ نو مسٹر سید! ہاتھ کے لکھے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس میں پرسنل ٹچ ہوتا ہے، کمپیوٹر تو محض ایک مشین ہے اور پیاروں کو مشین پر تو نہیں ٹرخایا جا سکتا۔
چنانچہ کھڑکی کے پاس دھری ایک مختصر سی میز اور اسٹول نما کرسی کو عارضی دفتر بنایا اور سرنامے لکھنے کے ساتھ، ساتھ کارڈز لفافوں میں بھی ڈالتے رہے۔ بیچ میں ماکولات و مشروبات (سافٹ) سے تواضع بھی جاری تھی اور گفتگو بھی۔ کہنے لگیں ”کیا تم نے بھی نرسری اسکول میں وہ نظم پڑھی تھی؟“
"Something old, something new, something borrowed, something blue."
اب ہم انہیں کیا بتاتے کہ ہمارا نرسری (پرائمری) اسکول کس قماش کا تھا اور اس تک پہنچنے کے لئے کن، کن پگڈنڈیوں، ندیوں اور نالوں میں سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا۔ جواب کا انتظار کئے بغیر بولیں! ہم روایت پسند لوگ ہیں۔ الفریڈ کی دلہن کیلئے تحائف اکٹھے کر رہی ہوں۔ یہ جیولری کے ڈبّے اور کپڑوں کے باکس اسی لئے بکھرے پڑے ہیں کہ ”سم تھنگ اولڈ“ تلاش کر سکوں۔ نانی، دادی کے استعمال کی کوئی پرانی مگر معقول چیز۔ کوئی کپڑا، اسکارف یا زیور جسے لڑکے کی دلہن کے لئے الگ کر سکوں۔ مجھے حیرت زدہ دیکھا تو گویا ہوئیں۔ اسے ہم بزرگوں کی برکت سمجھتے ہیں اور خاندانی تسلسل کا سمبل بھی تاکہ دلہن کو احساس ہو کہ اس کے پاس ایک ایسی نادر شے موجود ہے جسے اس کے بڑے بزرگوں نے بھی استعمال کیا۔ رہا ”سم تھنگ نیو“ تو یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ ایک سے ایک بڑھیا اور جدید فیشن کی برانڈڈ چیزوں سے بازار بھرے پڑے ہیں۔ دلہن کو ساتھ لے جا کر بھی شاپنگ کرائی جا سکتی ہے۔ سم تھنگ بوروڈ (Something borrowed) کے بارے میں کہا کہ کامیاب اور خوش باش شادی شدہ جوڑوں کو ہمارے ہاں بڑی حسرت سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے زیر استعمال اشیاء کو باعث برکت خیال کیا جاتا ہے اور نئے شادی شدہ جوڑوں کو یہ اشیاء تحفتاً دی جاتی ہیں کہ ان کے اترن کی بدولت شادی کے بندھن میں بندھنے والا نیا جوڑا بھی خوش و خرم زندگی گزار سکے۔ اگر وہ ازخود گفٹ نہ بھی کریں تو دولہا، دلہن کے لئے ان کی استعمال کی ہوئی کوئی چیز مانگ لینے میں بھی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ سم تھنگ بلیو (Something Blue) کی اہمیت یہ ہے کہ یہ رنگ خالق کائنات کو بے حد پسند ہے۔ آسمانوں کو دیکھو یا سمندروں کو نیلاہٹ ہر جگہ غالب ہے۔ سو جو چیز گاڈ کو پسند ہے ہمارے نزدیک بھی پسندیدہ ہے۔ ایسے میں اور کچھ نہیں تو شگون کے طور پر دلہن ہیٹ میں نیلا ربن باندھ لیتی ہے اور دولہا کوٹ کی جیب میں اس رنگ کا رومال رکھ لیتا ہے“۔
دفعتاً ایک کوندا سا لپکا اور راقم کو کالج کے زمانے کے ایک دوست کا خیال آ گیا جو کھاتے، پیتے زمیندار گھرانے سے تھا۔ شادی ہوئی تو ساس نے بڑے چاؤ سے 20 تولے کا جڑاؤ خاندانی ہار مختصر سے تعارف کے ساتھ دلہن کے گلے میں ڈالا تھا کہ بے حد برکت والا ہے، سات پشتوں سے چلا آ رہا ہے۔ گویا کہ سات سہاگنیں اسے پہن چکی ہیں۔ دلہن نے اگلے ہی دن اتار کر کنس پر رکھ دیا تھا کہ اگر گفٹ کرنا ہے تو کوئی کام کی چیز کریں، اس پھٹیچر آثار قدیمہ کے لئے میں ہی رہ گئی ہوں؟ اس کی اس حرکت کو روایتوں سے بندھے اس خاندان نے بدشگونی اور توہین خیال کیا تھا۔ ایک بھونچال کی کیفیت تھی اور شادی بمشکل تین ماہ بھی نہ چل پائی تھی اور میں حیران تھا کہ یورپ میں پلی بڑھی، اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسر ڈورتھی اپنی بہو کے لئے یہی ”پھٹیچر آثار قدیمہ“ کس ذوق و شوق سے جمع کر رہی تھیں۔
اللہ کی زمین پر بہ کثرت گھومنے، پھرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مختلف وسیبوں اور تہذیبوں کے اندر جھانکنے، بھانت، بھانت کے لوگوں سے ملنے اور ان کے رہن، سہن اور رسوم و رواج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ امریکہ اور یورپ میں کئی مقامیوں اور تارکین وطن کی شادیوں میں شرکت کی۔ تارکین وطن کا معاملہ تو سیدھا ہے کہ وطن کی ہر، ہر چیز کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ شادی شکاگو میں ہو رہی ہو یا لندن میں، گماں یہی گزرتا ہے کہ پشاور، لاہور، کراچی یا پھر جالندھر، دہلی یا ممبئی کی فضاؤں میں ہو رہی ہے۔ سو ان تقریبات میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ مایوں، مہندی سے لے کر دودھ پلائی اور جوتا چھپائی تک سب ہی کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ راقم کی دلچسپی کا مرکز ہمیشہ لوکل یورپینز یا امریکیوں کی شادیاں رہی ہیں۔ آج سے 19 برس قبل مختلف مذاہب، خطوں اور علاقوں کی شادیوں کے حوالے سے راقم کا ایک مضمون ”نیو یارکر“ میں چھپا بھی تھا اور ملکی و غیر ملکی احباب میں خاصی پذیرائی پائی تھی۔
حیرت کی بات ہے کہ دنیا بھر میں شادی کی رسومات میں بے پناہ یکسانیت اور مشابہت پائی جاتی ہے۔ کم و بیش ہر کہیں شادی کی جانب پہلا قدم منگنی کی رسم سے اٹھایا جاتا ہے اور منگنی کی انگوٹھی کی تقریب ہر جگہ نہایت جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ عیسائیوں میں تو اسے مذہبی تقدس بھی حاصل ہے۔ رسم تو یہ ہمیشہ سے تھی مگر دھات کی تخصیص نہیں تھی لہٰذا لوہا، تانبا، پیتل سب چلتا تھا۔ 860ء میں پوپ نکولس اوّل نے حکم نامہ جاری کیا کہ عورت کوئی ایسی گری پڑی چیز بھی نہیں کہ بے وقعت دھاتوں کی انگشتریوں کے عوض بک جائے۔ منگنی کی انگوٹھی سونے کی ہو گی، ہیروں، جواہرات سے مزین ہو تو اور بھی اچھا ہے تاکہ پتہ تو چلے کہ دولہا اپنی ہونے والی بیوی کے لئے مالی ایثار کا جذبہ رکھتا ہے۔
دلہن کو ڈولی یا سواری سے گود میں اٹھا کر گھر میں پہنچانے کا رواج بھی دنیا بھر میں مختلف اشکال میں رائج ہے۔ برصغیر کے بعض علاقوں میں ساس، دلہن کو گود میں اٹھا کر گھر کے اندر لے جاتی ہیں جس کے لئے ساس کا ویٹ لفٹر نہیں تو کم از کم صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ دراصل یہ گھر کی نئی مالکن کے استقبال کا ایک انداز ہے۔ مغرب میں دلہن کو اٹھا کر گھر لے جانے کی ذمہ داری شوہر پر ہے۔ وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ دلہن نئے گھر کی راہوں کی اونچ، نیچ سے ناآشنا ہوتی ہے۔ پہناوے اور جوتے بھی اسپیشل ہوتے ہیں، ایسے میں اگر دلہن بے چاری ڈگمگا جائے، پھسل جائے یا خدانخواستہ گر جائے تو اسے بدشگونی سمجھا جاتا ہے۔ دنیوی ترقی کی معراج کو پہنچنے والی مغربی اقوام توہم پرستی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں اور آج بھی ان کا عقیدہ ہے کہ گھر کی دہلیز کے نیچے بدروحیں چھپی ہوتی ہیں جو دلہن نے اگر خود پھلانگ لی تو نقصان کا موٴجب بن سکتی ہیں۔
تازہ ترین