• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک مضمون میں ایک عام آدمی اور بڑے آدمی کے رویے کا فرق بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کےبقول جب ایک عام آدمی قبرستان جاتا ہے تو وہ کہتا ہے، السلام علیکم یا اہل القبور، لیکن بڑا آدمی اگر قبرستان میں قدم رنجہ فرمائے تو کہتا ہے ’’وعلیکم السلام لیٹے رہیے، لیٹے رہیے‘‘ تاہم میرے ایک دوست دانا خرد پوری کا کہنا ہے کہ بڑا آدمی ٹھیک کرتا ہے۔ لفٹ ہمیشہ زندہ آدمی کو کرانا چاہیے۔ مردوں کے ناز نخرے اٹھانے کا کیا فائدہ؟ دانا خرد پوری اس سلسلے میںمنیر نیازی کا قول پیش کرتا ہےکہ حضرت عیسیٰ جن مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے وہ بعد میں حضرت عیسیٰ کے بیری ہو جاتے تھے، ہماری عام زندگی میں بھی ایسا ہوتا ہے آپ جس مردے کو زندہ کرتے ہیں تو اس کے شر کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے، یہی کچھ ہماری حکومتیں بھی کرتی ہیں لیکن یہ مردے بعد میں حکومت کے نہیں پاکستان کے بیری ہو جاتے ہیں۔

میں نے ایک دن دانا خرد پوری سے پوچھا کہ تم بڑے آدمیوں کے متکبرانہ رویے کے حامی کیوں ہو؟ موصوف نے جواب میں کہا کہ میں ان کے متکبرانہ رویے کا حامی نہیں میں اپنے ذاتی تجربے کی وجہ سے چھوٹے لوگوں سے ملتے ہوئے فاصلہ رکھنے لگا ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا وہ کیوں؟ بولا ہمارے جاننے والوں میں سے ایک شخص ایسا بھی تھا جس سے ہم سب لوگ بہت حقارت آمیز سلوک کرتے تھے، وہ بظاہر ہمارے حلقہ احباب میں شامل تھا لیکن اس سے برابری کاسلوک نہیں ہوتا تھا میں نے ایک دن اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سب دوستوں کوبہت برا بھلا کہا اور انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آخر وہ بھی انسان ہےبلکہ وہ ہمارے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے لہٰذا اس سے امتیازی سلوک اچھا نہیں۔ دوستوں نےجواباً کہاتو اس سے اچھا کرکے دیکھ لو ، چنانچہ میں نے اس سے برابری کی سطح پر ملنا شروع کیا تھا ۔کچھ عرصے بعد اس نے ایک محفل میں ایک حقارت آمیز قہقہہ لگایا اور کہا جو شخص میرے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہو، ہنستا بولتا ہو ، وہ معزز کیسے ہوسکتا ہے؟

مجھے دانا خرد پوری کی یہ بات سن کر بہت ہنسی آئی اور مجھے وہ اپنے کمشنر دوست بھی یاد آگئے جنہوں نے بطور اسسٹنٹ کمشنر اپنی عملی زندگی کی ابتدا کی تھی۔ ایک دن انکے دفتر میں ایک بوڑھا سائل ان کے پاس آیا میرے دوست نے انہیں اپنے برابر میں کرسی پیش کی، اس کیلئے چائے منگوائی اور بہت توجہ سے اس کی بات سنی بلکہ اس کی جن دستاویزات کی فوٹو کاپی درکار تھی میرے دوست نے وہ فوٹو کاپیاں بھی بنوا دیں۔ جب سائل رخصت ہوا تو باہر کھڑے اس کے ساتھیوں نے پوچھا نیا صاحب کیسا ہے؟

سائل نے برا سا منہ بنا کر کہا ’’کوئی رعب داب ہی نہیں بہت کمزور سا افسر لگتا ہے‘‘۔

میرے ایک دوست نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اس کی پوسٹنگ بطور اے ایس پی ہوئی۔ ایک دن ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا ’’سنائو پرانے دوستوں سےبھی ملاقاتیں جاری ہیں یا انہیں بھول گئے ہو؟‘‘دانت کچکچا کر بولا ’’میں انہیں کیسے بھول سکتا ہوں مجھے ان میں سے ایک ایک کی منحوس شکل یاد ہے‘‘ میں نے کہا ،خیرتو ہے بہت غصے میں نظر آ رہے ہو؟ بولا ’’رفیق میرا اسکول فیلو تھا، ایک دن میرے دفتر آگیا حالانکہ اس نے میلی کچیلی دھوتی باندھی ہوئی تھی اور پائوں میں ہوائی چپل تھی مگر میں نے اسے اپنے عملے سے ملایا اور کہا یہ میرا بچپن کا دوست ہے یہ مجھے ملنے آئے تو اسے کبھی دروازے پر نہ روکنا‘‘۔ اس کے رخصت ہونے کے اگلے روز میں نے محسوس کیا کہ میرے عملے کے افراد مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے تھے بلکہ ان میں سے کچھ تو اپنی ہنسی بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کر تے تھے،میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ میرے حوالےسے بڑی واہیات باتیں کرکے گیا ہے۔ خود میرے لئے بھی وہ واقعات بالکل نئے تھے جو اس نے میرے ساتھ اپنی بےتکلفی ظاہر کرنے کیلئے میرے عملے کے افراد کو بتائے تھے۔

اس سے ملتی جلتی بات ایک سابق وزیر نےبھی مجھے سنائی۔ اس نےبتایا کہ جب وہ وزیر بنا تو سب سے زیادہ دکھ اس کےقریبی دوستوں کو ہوا، ان سب نے بہت مسرت کا اظہار کیا مگر دوسروں کے سامنے وہ کہتے تھے وہ کل تک ہمارے ساتھ تھڑے پر بیٹھا کرتا تھا، اللہ کی قدرت ہے آج وزیر بنا بیٹھا ہے، سابق وزیر نے بتایا کہ جب سے اس نے ان کے ساتھ تھڑے پر بیٹھنا چھوڑا ہےاس وقت سے انہیں کچھ سکون ہے۔ انہیں اب یہ دکھ نہیں کہ ان میں سے کوئی شخص ان سے اوپر کیوں چلا گیا ہے کیونکہ وہ شخص اب ان کے لئے غیربن گیا ہے اور دکھ تو تب ہوتا ہے جب کوئی اپنا ترقی کرے، غیر کی ترقی کا دکھ تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ایک شاعر خوش نوا بشیر بدر بھی غالباً کچھ اس قسم کے تجربات سے گزرا ہے اور اسے اپنی انسان دوستی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، ورنہ وہ یہ شعر کبھی نہ کہتا۔

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے رہا کرو

تاہم اس سارے معاملے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ صاحب منصب طبقہ صدیوں سے ہمیں ذلیل کرتاچلا آ رہا ہے اور اس نے ہمیں ذلت کا اتنا عادی بنا دیا ہے کہ ہم میں سے کچھ کو اب عزت راس ہی نہیں آتی، لگتا ہے صدیوں کی ذلت کے بعد اب عزت ’’برداشت‘‘ کرنا ہمیں آہستہ آستہ ہی آئے گا تاہم مسئلہ دور رہنے سے نہیں بلکہ اور قریب آنے سے ہی حل ہوگا۔ بڑے لوگوں کو لیٹے رہیے، لیٹے رہیے، والا رویہ مستقل طور پر چھوڑنا ہوگا اور چھوٹےلوگوں کو اپنے کامپلکس سے مستقل رہائی دینا ہوگی تاہم کسی کو عزت دینے سے پہلے اس کا ظرف ضرور دیکھ لیں، خواہ وہ ’’بڑا‘‘ آدمی ہو یا کوئی ’چھوٹا‘‘ ہو۔ عزت صرف اس کو دیں جس کا ہاضمہ ٹھیک ہو، کم ظرف شخص عزت ملنے پر کھٹے ڈکار مارنے لگتا ہے!

تازہ ترین