• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ امریکی کہہ رہے تھے کہ نوے کی دہائی کی غلطی کو نہیں دہرائیں گے اور ہم بھی کہہ رہے تھے کہ ماضی سے سبق سیکھ چکے ہیں لیکن امریکہ نے بھی وہی کیا جو نوے کی دہائی میں سوویت یونین اور خود اس نے کیا تھا اور ہم نے بھی انہی بلنڈرز کا ارتکاب کیا جن کا اس وقت کیا تھا۔

خیر سے طالبان بھی وہی غلطی دہرارہے ہیں جس کا ارتکاب مجاہدین نے کیا تھا۔ نوے کی دہائی میں ہونا تویہ چاہئے تھا کہ سوویت انخلا سے قبل نجیب حکومت اور مجاہدین کی مفاہمت کرائی جاتی کیونکہ اصل فریق وہ تھے لیکن جینوا معاہدے کے ذریعے سوویت یونین، امریکہ اور پاکستان نے سوویت افواج کے انخلا کے روڈ میپ پر تواتفاق کیا لیکن نجیب حکومت اورمجاہدین کے معاملے کو مستقبل پر چھوڑ دیا۔

سوویت افواج کے انخلا کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کا سہارا چھن گیا اور وہ مجاہدین کے ساتھ مفاہمت پر زور دیتے رہے لیکن تب مجاہدین ان کی حکومت کو سوویت یونین کی کٹھ پتلی قرار دے کراُسے رتی بھر اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے۔ مجاہدین کی جیت امریکہ، عرب دنیا اور پاکستان کی سپورٹ اور سوویت یونین کی اپنی غلطیوں کی بھی مرہونِ منت تھی لیکن مجاہدین یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف انہوں نے اپنے جذبۂ ایمانی کے باعث سوویت یونین کو شکست دی۔ چنانچہ وہ زمین پر پائوں رکھنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انہوں نے بزور بندوق افغانستان پرقبضہ کرنے پر اصرار جاری رکھا۔

دوسرے مرحلے میں پھر آپس میں لڑپڑے۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی باہمی لڑائیوں کے باعث افغانستان تباہ وہ برباد ہوا۔ آخر میں مجاہدین کو طالبان کے ہاتھوں عبرتناک مار پڑی۔ امریکہ کو یہ سزا ملی کہ ایک دن وہی افغانستان القاعدہ کا گڑھ بن کرخود امریکہ کے لئے وبال جان بن گیا۔

اب ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے اور سب کردار ماضی کی حماقتوں کو۔ امریکی قیادت گزشتہ بیس برسوں میں بار بار یقین دلاتی رہی کہ وہ نوےکی دہائی کی غلطی کو نہیں دہرائے گی لیکن وہ اس سے بھی بدتر بلکہ مہلک غلطی کرنے جا رہی ہے۔ افغانستان کو تباہی اور جنگ کے سپرد کرکے امریکہ وہاں سے اپنی افواج کو نکال رہا ہے۔

ہونا یہ چاہئے تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کی مفاہمت پہلے کرائی جاتی اور پھر غیرملکی افواج نکلتیں اس صورت میں امریکہ کابل حکومت پر بھی زیادہ دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں ہوتا اور طالبان سے بات منوانا بھی نسبتاً آسان ہوتا لیکن افغان حکومت کو بائی پاس کرکے امریکہ نے طالبان سے ڈیل کر لی۔ اس ڈیل نےافغان حکومت کی پوزیشن کو نہایت کمزور کیا جبکہ طالبان ایک فاتح کے طور پر سامنے آئے چنانچہ ان کا رویہ نہایت جارحانہ ہے۔ دوسری طرف اشرف غنی کی حکومت بھی طالبان سے مفاہمت کو اپنے خاتمے کی تمہید سمجھتی ہے۔

پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ طالبان اور امریکہ کی ڈیل میں تعاون سے قبل دونوں فریقوں کو مجبور کرتا کہ وہ بین الافغان مفاہمت کریں لیکن اس نے بھی بین الافغان مفاہمت کو دوسرے مرحلے پر چھوڑ کر امریکہ اور طالبان کی ڈیل کروانےمیں مدد فراہم کی ۔

اب آتے ہیں مغالطوں کی طرف۔ پاکستان میں یہ مغالطہ عام ہے کہ امریکہ اسی طرح افغانستان سے نکل رہاہے جس طرح کہ سوویت یونین نکلا تھا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ امریکی افواج نکل رہی ہیں لیکن امریکہ نہیں نکل رہا۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اس کے بعد بھی صرف افغان حکومت نہیں بلکہ بڑی حد تک طالبان کا ریموٹ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ کے ہاتھ میں رہے گا۔

سوویت یونین کی طرح امریکہ کے ٹکڑے ہوئے اور نہ وہ اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوا ہے۔ امریکہ اس کے بعد بھی بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت ہے۔ جتنے ڈالر سالانہ وہ جنگ پر خرچ کررہا تھا، اس کا دسواں حصہ بھی اگر افغانستان اور خطے میں خرچ کرے توافغانستان کے مختلف کرداروں سے اپنی مرضی کا کام لے سکتا ہے۔ جب تک امریکی افواج افغانستان میں موجود تھیں تو مشکل کام یعنی استحکام لانا اس کی ذمہ داری تھی جبکہ انتشار پھیلانے کا آسان کام اس کے مخالف ملکوں کے سپرد تھا۔ اب جب اس کی افواج نکل جائیں گی تو وہ پاکستان کا محتاج نہیں رہے گا۔

آسان کام اس کے حصے میں آجائے گا اور مشکل کام پاکستان جیسے پڑوسیوں کے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ اگر امریکہ ،چین، ایران اور پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کرنا چاہتا ہے تو اس کا آسان راستہ افغانستان میں انتشار ہے اسی وجہ سےبین الافغان مفاہمت، امریکہ کی نہیں بلکہ پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ہر قیمت پر اس کی کوشش کرنی چاہئے۔

ایک مغالطہ طالبان کے ذہن میں ہے۔ وہ بھی مجاہدین کی طرح سمجھتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی حالانکہ اگر امریکہ کی اپنی غلطیاں اور پاکستان،ایران اور روس وغیرہ کا کردار نہ ہوتا تو اس انداز میں ان کی فتح کبھی ممکن نہ ہوتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر افغانستان پر قابض ہوسکتے اور اسے چلاسکتے ہیں حالانکہ وہ قبضہ تو کرسکتے ہیں لیکن چلا نہیں سکتے۔ طالبان کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ افغانستان کو چلانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوگی اور اگر وہ تنہا ماضی کی طرز پر اپنی حکومت قائم کریں گے تو باہر سے پیسے کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

دوسری بات انہیں یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جب تک امریکی افواج سے مقابلہ تھا تو پاکستان، ایران، روس اور چین وغیرہ کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں لیکن اب اگر وہ تنہا اپنے اقتدار اور امارات اسلامی کے قیام پر اصرار کریں گے تو یہ ان ممالک میں سے کسی کو بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔

طالبان صرف افغان حکومت کی حیثیت اور مورال کو نہ دیکھیں کیونکہ ان کی مزاحمت حکومت نہیں بلکہ تاجک، ازبک، ہزارہ اور ترکمن قومیتوں کی طرف سے کی جائے گی۔ آج تو وہ کمزور نظر آرہے ہیں لیکن اگر طالبان تنہا اپنی حکومت کے قیام پر اصرار کریں گے تو ماضی کی طرح کئی ممالک ان کے مخالفین کی سپورٹ کے لئے میدان میں کود پڑیں گے۔

آج اگر ان کی مزاحمت نہیں ہورہی تو وجہ یہ ہے کہ افغان جنگوں سے تنگ آگئے ہیں لیکن اگر طالبان، مجاہدین کی طرح جنگوں کا موجب بنے تو کچھ عرصہ بعد ان کا بھی وہ حشر ہوسکتا ہے جو مجاہدین کا ہوا تھا۔

تازہ ترین