• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عموماً میں ڈرا ڈرا سا رہتا ہوں کہ کہیں سچ نشانے پر نہ جا لگے۔ اس لئے کوشش ہوتی ہے جنت ملے نہ ملے جہنم سے تو بچا رہوں، اب ایسی صورت حال میں میرے پاس مقامِ اعراف کے علاوہ کوئی چوائس نہیں بچتی۔ چار پانچ دن قبل بقول مومنؔعالم یہ تھا کہ

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ

رات کاٹی خداخدا کر کے

ایک وائس چانسلر نے درجن بھر وائس چانسلرز، بیسیوں پروفیسرز اور میڈیا پنڈتوں کو ’’اسلامو فوبیا کا بذریعہ ایجوکیشن تدارک‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرنے کیلئے مدعو کیا۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔ کہا تو یہ گیا تھا کہ پینل ڈسکشن کا اہتمام ہے مگر آدھے سے زیادہ وقت جب خطبوں میں گزر گیا تو ہم سمجھ گئے کہ یہ موضوع ہے کسی اور کا اسے چاہتا کوئی اور ہے۔ پتہ نہیں ہم وقت سے اور اپنے آپ سے انصاف کرنا اور قول و فعل کے تضاد کا خاتمہ کب کریں گے۔ وقت، علم اور پختہ ارادے کے سنگ سنگ چلنے کے بعد رخت سفر میں چوتھی اہم ترین چیز عمل ہے۔ عمل سے زندگی بنتی ہے۔ المنصور نے پورا شہر ہی ایسا آباد کر دکھایا کہ جس کا ایکوسسٹم ہی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، طب اور کیمیا، فزکس اور ریاضی بن گیا۔ جس کا تہذیب و تمدن سوشل انجینئرنگ بن گیا اور کوچہ و بازار میں لسانیات کی خوشبوئیں دماغوں کو معطر کرتی تھیں۔ پتہ چلتا تھا کوئی قوم ہے اور کوئی مصمم ارادہ بھی۔ رفتہ رفتہ ہم اپنے آپ سے دور ہوتے گئے وہ سب جو ہمارے آنگن میں تھا وہ غیروں کی جھولی میں چلا گیا۔ ہم نے صحراؤں، پہاڑوں اور دریا کناروں پر جو باغات لگانے تھے ،انہیں فراموش کرکے گملوں میں درخت چلانے کی روش پکڑ لی جو ایسے ہی تھا جیسے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا ارادہ ہو۔ تاریخ میں فتح مکہ، صلح نامہ حدیبیہ اور میثاقِ مدینہ کی فہم و فراست علاوہ بریں حضرت عمر بن خطاب، حضرت عمر بن عبدالعزیز اورحضرت امیر معاویہ کی ریفارمز ہمیشہ سے جدید مغرب کیلئے حیران کن رہی ہیں۔ محسنِ انسانیت و پیغمبر امن حضرت محمدﷺ کو معاشرتی بناؤ میں مغرب کے غیر مسلم مفکرین نے سر فہرست رکھا۔ یوں تہذیب و تمدن اور تحقیق و تفتیش کے کمال میں اسلام کا جمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ابو جعفر عبداللہ بن محمد المنصور نے بھی گر آٹھویں صدی میں پورا شہر علم و تحقیق کا گہوارا بنا دیا تھا تو بعد میں سارے مسلمان مل کر بھی اپنے کسی ملک میں ایک معیاری یونیورسٹی کیوں نہ بناسکے جو آکسفرڈ یا ایم آئی ٹی یا ہارورڈ کا مقابلہ کرپاتی؟

کسی وائس چانسلر نے تکلف نہیں کیا کہ وہ عملی راستہ دکھا کر یا وعدہ کرکے نکلے کہ ہم ریسرچ کا یہ ذمہ لیتے ہیں اور پلیجرزم کو 420، 468 اور 471 کے زمرے میں رکھیں گے۔ کسی نے اس کی نشاندہی نہیں کی کہ کرائم سنڈیکیٹ کے رویوں کو ختم کرکے اپلائیڈ سائنسز کو انڈسٹریل لنک سے جوڑ کر دم لیں گے۔ کسی نے کوئی ایسا فارمولا نہیں دیا کہ ہم ایمرجنگ گلوبل ٹرینڈز کے مطابق ایک طرف مخصوص کلچرل زاویوں اور لسانی روایات کو تقویت بخشیں گے اور دوسری جانب انگلش لینگوئج کی مہارت کو استعمال میں لائیں گے۔ کوئی اشارہ انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کیلئے نہیں آیا کہ ہم نے اپنے کیمپس میں اپنی بجلی ،اپنی گیس یا ذاتی الیکٹریکل یا الیکٹرانک سورس متعارف کروادیا ہے سو آگے جاکر یہ کرکے دم لیں گے۔ کسی نے انٹر پرنیورشپ کے حسن اور کمیونٹی سنٹر ہونے کی خوبصورتی کا ذکر خیر تک نہیں کیا۔ یہاں تو وائس چانسلرز ہی وائسرائے بنے بیٹھے ہیں پس طلبہ تو کیا اساتذہ بھی آزادی رائے انجوائے نہیں کرسکتے۔

معلوم ہے سب کو اسپین کے مسلمانوں کا کیا حال کیا گیا۔ آج فلسطین اور کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور کل بوسنیا میں کیا ہوا؟ پھر یہ بھی معلوم کہ مشرقی تیمور کو انڈونیشیا سے اور جنوبی سوڈان کو سوڈان سے کیسے اور کیوں رائے دہی کا استحقاق اور خودمختاری ملی۔ یعنی سوڈان اور انڈونیشیا مسلم ممالک تھے اور آزادی عیسائیوں کو ملی مگر یہ سب اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں کرنے سے گریزاں ہے۔ لیکن کوئی بتائے گا کہ اسلامک لٹریچر میں یہود و نصارٰی کے بارے میں جو کہا گیا ، جو مرتد کا معاملہ اور جہاد کا فلسفہ ہے وہ کیا غیر مسلموں کو نہیں معلوم ۔ یہاں دو باتیں مختصراً بیان کردوں۔ ایک تو یہ کہ جدوجہد کی سعی اور دوام ہی سے بقا کا معاملہ سیدھا سیدھا ارتقا سے متعلق بھی ہے اور انقلاب سے بھی۔ دوسری عرض یہ کہ جب مسلمان چیلنجر ہیں تو چیلنجز کہتے ہیں نوبل پرائز بھی لینا چاہئے اور ویکسین سازی میں آگے بڑھنا ہوگا۔ دریافتوں اور ایجادات کی فہرست میں ہمیں بھی درج ہونا ہوگا۔

اسلاموفوبیا صرف سائنس و ٹیکنالوجی یا معاشی و معاشرتی بگاڑ کے سبب ہمارے سامنے نہیں کھڑا اس کی وجہ ہمارے ہاں لیڈر شپ کا فقدان ہے جو لیڈر شپ اس ڈیجیٹل دنیا میں یونیورسٹیوں ہی سے نکلے گی۔ اسلام مخالف لیڈر شپ لوگوں کو اسلاموفوبیا کی شاہراہ پر لائے ہیں کہ ہم الجھے اور جڑے ہی رہیں۔ معاشی و نفسیاتی اور سائنسی و طبی مہارتوں سے دور ہی پائے جائیں ۔ ہمارے ہاں آمریتیں رہیں جمہوریتیں نہیں ۔ ایران و عراق آپس میں الجھے رہیں اور عربوں میں صلح جوئی کے دریچے نہ کھلیں اس لئے متعصب غیر مسلم لیڈر شپ آتش و آہن ہمارے ہاتھوں سے چلواتے ہیں اور خود دماغ چلاتے ہیں ۔ پس اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے برین مسلمانوں کو عمل میں لانا ہوگا برین ڈرین ہمارے لئے مہلک ہے اور اسلاموفوبیا کا جن جنہوں نے بوتل سے نکالا ہے وہ دراصل عالمی امن کے دشمن ہیں۔ کسی مذہب اور ملک کے مزدور و کسان اس بدامنی کا سبب نہیں،اگر اسلاموفوبیا کی اصطلاح یونہی بگاڑ کیلئے استعمال ہوتی رہی تو لیڈرشپ اور مستقبل کے معمار اس کی وجہ ہوں گے۔ پس مہارتوں اور فراستوں والی لیڈرشپ ہی بناؤ کا سبب ہوسکتی ہے۔ مسلمان ٹرین کے مسافر نہ بنیں وہ اپنا رخ یا سیٹیں بدل بدل کر منزل نہیں پائیں گے، اس معاشی و معاشرتی اور سائنس و ٹیکنالوجی و انجینئرنگ کی ٹرین کے اسٹیئرنگ کو تھامنا ہوگا گر مطلوبہ نتائج درکار ہیں۔ اسلاموفوبک کو اِسلاموفِلک میں بدلنے کیلئے مسلمانوں کو بدلنا ہوگا!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین