• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میاں جہاں ان دنوں اپنا قیام ہے، وہاں برسات کی بہاریں ہیں۔ دن بھر میں دو چار بار ترشح بھی ہو جاتا ہے۔ آم کی مجلسیں سجائی جا رہی ہیں۔ مگر آپ جانیں، میرا فواکہات سے کبھی کچھ ایسا تعلق نہیں رہا۔ کل صبح آنکھ کھلی تو عجب ہوا چل رہی تھی۔ عادت سے مجبور ہوں، اخبار کی طلب ہوئی مگر امروز کہاں! صبوحی کے دو گھونٹ لئے۔ خیال آیا غلام رسول مہر کے ہاں چلتے ہیں۔ ہری گھاس پر دراز ہو کر غسل فرما رہے ہوں گے۔ پھر کچھ سوچا اور خیال بدل گیا۔ صبوحی سبک تھی، رفتار خیال کا وہ عالم تھا کہ سینہٴ شمشیر سے باہر تھا دم شمشیر کا۔ یاد آیا کہ حمید جہلمی بھی پچھلے دنوں یہاں پہنچے ہیں اور پچھواڑے کی گلی میں مکان لیا ہے۔ آج ان کے ہاں سیر گل کی جائے۔ وہ جہلم سے ہیں اور میں پونچھ کا مہاجر، ہمارے بیچ دریائے جہلم کی موجوں کا رشتہ بھی تو ہے۔ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں۔ مگر صاحب ہمارے رخصت ہونے کے بعد اردو صحافت کو ایک نیا رنگ تو دیا ان حضرت نے۔ گئے گزرے وقتوں میں امروز کا نام زندہ رکھا۔ اس آن بان سے صحافت کی کہ ڈنکا پٹ گیا۔ چہار رنگی تصاویر، موضوعاتی ایڈیشن، مزے کے کالم۔ اردو میں فکاہیات کی روایت تو سالک صاحب اور میں نے شروع کی تھی۔ مگر حمید جہلمی صاحب کے رفقائے کار نے اس صنف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ منو بھائی کے نام کا ڈنکا پٹتا ہے۔ غالب نے سچ کہا
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
مولانا، ہمارے بعد آنے والوں کو ہم سے آگے تو نکلنا تھا۔ اگرچہ یہ قلق رہے گا کہ ہم محی الدین ابو الکلام آزاد اور نواب نصیر حسین خیال کی گرد کو نہ پا سکے۔ خیر اس کی تلافی کا بھی ایک رنگ پیدا ہوا۔ سنتے ہیں کہ اب لاہور میں لڑکے لپاڑے اخبار نویسی کرتے ہیں۔ ایک جملہ پچھلے دنوں کسی گیانی کا اڑتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا کہ صحافت اور جرم میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ہمارے عہد میں سیاست اور جرم کے ڈانڈے ملنے کا شکوہ کیا جاتا تھا۔ خیر سنا تو یہ بھی ہے کہ صحافت اور سیاست میں بھی کچھ ایسا فرق نہیں رہا۔ یار لوگ سیاست کے نام پہ صحافت کا پیٹ بھرتے ہیں اور صحافت کی آڑ میں دھندہ کرتے ہیں۔ انہی خیالوں میں ڈوبا، ٹہلتا ہوا حمید جہلمی کے در دولت کی طرف بڑھتا رہا۔ جی ہاں، اب جو ہو، سو کم ہے۔ میاں افتخار الدین نہ رہے اور رہتے بھی کیوں کر بھئی، اگر پاکستان ٹائمز کا اداریہ سرکاری نوکروں کو لکھنا ہے تو میاں افتخار کو اپنی دکان بڑھانا ہی پڑے گی۔
میاں حمید جہلمی کی محل سرا نظر آرہی تھی۔ سنگ مرمر پہ ہری بیلیں چڑھا رکھی ہیں۔ دربان مجھے پہچانتا ہے، بے روک اندر لے گیا۔ اخاہ یہاں تو آج محفل برپا ہے۔ حمید جہلمی تو گویا گلدستہ احباب کی بندش کی گیاہ ثابت ہوئے۔ شفقت تنویر مرزا ہیں، گھاس کے ایک قطعے پر رکھی جھولنے والی کرسی پہ بیٹھے مظہر علی خاں منہ میں پائپ دبائے معمول سے زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔ حمید تپاک سے ملے اور کچھ کہنے سے پہلے پاس میں رکھی تپائی سے اٹھا کے اخبارات کا ایک پلندہ میری طرف بڑھا دیا۔ اسے دیکھتے ہی ہم نفسان بہشت کی مسرت کا سبب سمجھ میں آ گیا۔ لاہور ہی سے کوئی درجن بھر سے زائد اخبارات نکل رہے ہیں۔ اور ہر اخبار کی پیشانی ایسی روشن کہ طبیعت شاد ہوجائے۔ چہ خوب! صحافت کے جملہ اساتذہ یہاں بیٹھے ہیں اور لاہور میں صحافت پر بہار آئی ہے۔
ایک اخبار کے صفحات الٹ پلٹ کر دیکھے۔ تعجب ہوا کہ حروف کا سائز اور بناوٹ میں رتی بھر فرق نہیں۔ سگریٹ سلگا کر کہا، صاحب ہمیں تو لام، میم اور نون درست بنوانے میں عمر گزر گئی۔ لاہور کے ان اخبارات کے مالکان نے اپنے کاتب کیا دہلی کے بیرسٹر آصف علی کی گلی سے منگوائے ہیں۔ شفقت تنویر ہنسے اور بولے ارے نہیں صاحب، دنیا بہت بدل گئی ہے۔ اب آپ کو یوسف زریں رقم کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ معمولی اردو لکھنے والاایک ڈبے کے سامنے بیٹھ کر ٹائپ رائٹر جیسی ایک تختی پر انگلی لگاتا ہے اور اردو کے حروف خط نستعلیق میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ پروف کا مسئلہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ کچھ ایسا بہتر نہیں۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ لاہور میں اب کسی کو املا کی پرواہ نہیں اور آپ ایسے خورسند نہ ہوں۔ ترقی جو ہوئی ہے، وہ مشینوں میں ہوئی ہے۔ معمولی صحافی تو ایک طرف، اردو اخبارات کے مدیر اب ایسے ایسے نابغہ روزگار پیدا ہوئے ہیں کہ آپ عالم اولیٰ میں ہوتے تو ان حضرات کو اخبار کی سیڑھیاں چڑھنے سے روک دیا ہوتا۔ اپنا چمرخ چپراسی نیچے گلی میں کھڑا کر دیا ہوتا آپ نے۔ روزمرہ اور محاورے کی صحت کا یہ عالم ہے کہ اخبارات کے دفاتر میں صحافی سے تھڑے کی زبان لکھنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ میں نے بوکھلا کے کہا کہ پھر تو اخبار تھڑے ہی سے شائع ہوتا ہوگا مگر صاحب ہم نے بھی زندگی بھر عوام کا دم بھرا۔ محمد دین تاثیر نے تو خاکسار کے بارے میں نظم میں پھبتی کہی تھی۔
عجیب بات وہ جنتا کا یار کہتا ہے
کہ شعر وہ ہے جو فتو لوہار کہتا ہے
عوام سے دوستی کا تقاضا تو یہ تھا کہ انہیں اٹھا کے علم، تہذیب اور تمدن میں اپنے برابر لائیے۔ یہ جمہور دوستی کی گویا نئی صورت نکالی ہے کہ جان بوجھ کر خود کو گرایا جائے اور عوام سے سانجھ کا نقارہ بجایا جائے۔ نوابزادہ مظہر علی سنجیدہ آدمی ہیں۔ کچھ سوچا اور پھر کہا بھائی حسرت، ڈاکٹر تاثیر کا شعر تو مزے کا ہے لیکن آپ نے اس پہلو سے غور کیا کہ جو نونہال اخبارات اور کتابوں میں بازاری زبان پڑھیں گے اور کل کو صحافت، تعلیم اور دوسرے شعبوں میں رہنمائی کے منصب کو پہنچیں گے تو انہیں ”عوام کی زبان“ لکھنے اور بولنے میں مشقت نہیں اٹھانا پڑے گی۔
تاثیر کا نام آیا تو میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، سنا ہے تاثیر صاحب کے صاحبزادے کو قتل کردیا گیا؟ شفقت تنویر نے تاسف میں آہ بھری اور کہا، بری خبر تھی۔ میں آپ کو سنانا نہیں چاہتا تھا مگر درست ہے۔ صاحبزادے پنجاب کے گورنر ہو گئے تھے۔ کسی غریب مسیحی عورت کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ انتہا پسندوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، ان کے بہکاوے میں آکے کسی نے اسلام آباد میں گراب مار دی۔ میں نے پوچھا اسلام آباد کہاں ہے؟ بولے ، پنڈی کے قریب ایک شہر بسایا ہے۔ یہی شہر اب پاکستان کا صدر مقام ہے۔ میں نے کہا بھائی، شہر تو بستے رہیں اور گلی کوچوں میں روشنی رہے، ہم یہاں دعا گو ہیں مگر یہ بات کچھ دل کو بھائی نہیں کہ اسلام کے نام پر جو شہر بسایا گیا ہے وہاں خون ناحق کی کھلی چھٹی ہے۔ خیر یہ بات تو ہوتی رہے گی۔ مجھے حسن ظہیر یاد آ گیا۔ وہ بھی صحافت میں ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ کسی سے بات کرکے دیکھیں، حسن ظہیر لاہور آجائیں تو کیا اچھا ہو۔ یہاں ہم اکٹھے ہیں، وہ لاہور میں نگینہ بیکری کی رونق بڑھائیں۔ حمید صاحب بولے، مولانا آپ کو بھی مزے کی سوجھتی ہے۔ ایک تو یہ کہ حسن ظہیر برسوں سے اسلام آباد میں انگریزی صحافت کر رہے ہیں اور صاحب اب نگینہ بیکری اور عرب ہوٹل کہاں۔ اب تو برگ و گل کا جو قصہ ہے، گلبرگ نام کی ایک بستی سے وابستہ ہے۔ میں نے کچھ تامل کیا اور کہا، اچھا مولانا، لاہور ہو یا کوئٹہ، کراچی ہو یا پشاور، سب شہر اپنے ہیں۔ حسن ظہیر جہاں بھی رہے، اس کی سلامتی کی دعا مانگنی چاہئے۔
تازہ ترین