• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خود راستی اور پارسائی کے متعلقات سے شغف رکھنے والے خواتین و حضرات مضطرب نہ ہوں، میں 5 جولائی 1977 اور اس کے بعد گزرنے والے گیارہ برس کے مرکزی کردار کی مذمت تو ایک طرف، ذکر کا ارادہ بھی نہیں رکھتا۔ تاریخ کے طالب علموں کے لئے کتاب مقدس کی نصف آیت ہی کافی ہے،لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا (کہ وہ ذکر کے قابل چیز نہ تھا)۔ اس عشرہ زیاں میں جو ہوا، وہ ایک الگ تھلگ حادثہ نہیں تھا، نااہلی، کوتاہی، سازش، جرم اور ناانصافی کا ایک تسلسل تھا۔ ایک کے بعد ایک برس گزرتا رہا، ربیع میں تعطل تھا اور خریف میں عبور، کاشت کاری کی مہلت ہی نہیں مل سکی۔ اپنی مٹی کی تحقیق نہیں کی، بیج کی جانچ نہیں کی، موسموں کی خبر نہیں رکھی، سو لاحاصلی کی فصل کاٹتے رہے۔ ایسی ہی ایک رات 5 جولائی 77کو اتری جس کے بعد منزلوں منزلوں راہ تاریک تھی۔

آپ سے وعدہ کیا کہ فرد پہ بات نہیں ہوگی، مگر عزیزو تاریخ کا حساب تو رکھنا ہو گا۔ ہماری آزادی کی روبکار 1947 میں جاری ہوئی۔ ٹھیک سو برس قبل 1847 میں اسدﷲ غالب پر ایک قیامت گزر گئی تھی۔ اس کا احوال خود مرزا کی زبانی پڑھ لیجئے، ’’کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف! فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں۔ باوجود یکہ مجسٹریٹ کوتوال کا حاکم ہے، میرے باب میں وہ کوتوال کا محکوم بن گیا اور میری قید کا حکم صادر کر دیا‘‘۔ اسے کہتے ہیں، قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔ فقط تیرہ ماہ میں قائد اعظم رخصت ہو گئے۔ اس زمانے کے اخبارات اٹھا کے دیکھیں، بابائے قوم کو علالت ہی لاحق نہیں تھی، فرزندانِ ناخلف کی بے اعتنائی کا قلق بھی تھا۔ باپ کا سایہ اٹھ گیا تو قوم مالِ مسروقہ کی طرح طفلان ِکوچہ و بازار اور محل سرا کے ملازموں میں منصب و جاہ کی کشمکش کا سامان قرار پائی۔ صرف ایک اشارہ دیکھ لیجئے۔ ڈھاکہ کے فضل الرحمٰن وزیر تجارت تھے اور موچی دروازہ لاہور کے غلام محمد وزیر خزانہ تھے۔ کابینہ کے اجلاس میں دونوں کے درمیان مغلظات کا کھلے عام تبادلہ ہوتا تھا۔ مولوی محمد سعید مرحوم روایت کرتے تھے کہ کسی محبوب نظر کے غسل خانے میں خودآرائی کے لئےبیلجیم سے آئینے درآمد کئے گئے تھے۔ تب مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی، خواندگی 13 فیصد اور فی کس آمدنی 97 ڈالر۔ قوم کی تعمیر کا ارادہ باندھا ہوتا تو مشرق بعید سے مشرق وسطیٰ تک پھیلا ہوا پاکستان آج دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا۔ ہمیں مگر اپنی پشتوں کی پسماندگی کا خراج درکار تھا۔ قوم پر اپنی ذات اور اہلِ وطن پر صلبی اولاد ترجیح قرار پائی۔ دستور ساز اسمبلی ٹوٹی، پھر دستور ٹوٹ گیا۔ ملک تو کہیں بعد میں ٹوٹا، شجر ریاست کی جڑ بہت پہلے کٹ گئی تھی۔ ادھر ادھر کے اخراجات کے لئے قوم گروی رکھ دی۔ قومے فروختند۔۔۔ شنید ہے کہ کچھ اصحاب نظر کو ایوبی عہد کی یاد ستاتی ہے۔ حسن ظہیر کی کتاب Separation of East Pakistan میں صرف معیشت سے متعلقہ حصے پڑھ لیجئے۔ معاشی استحصال کے ایسے ایسے نسخے وضع کئے گئے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عامل کان پکڑتے۔ ہم نے آزادی اس لئے مانگی تھی کہ تقسیمِ وسائل کی فیصلہ سازی میں شریک ہو سکیں گے۔ حق حکمرانی نہیں ملا تو شہری محض رعایا بن کر رہ گئے۔

ایک طویل آزمائش کے بعد اگست 1973 میں کتاب دستور مدون کی تو ہانکا کرنے والے اپنا دستور العمل طے کر چکے تھے۔ گمان ہے کہ بھٹو اور بزنجو دو ایسے صاحبان نظر تھے جو اس کھیل کو سمجھتے تھے۔ ایک کو زعم تھا کہ وہ شہ مات دے سکتا ہے دوسرے کو حیدر آباد کے زنداں میں بھیج دیا۔ 1977 کے ابتدائی مہینوں کا نقشہ اس رپورٹ میں پوشیدہ تھا جو دسمبر 1976 میں ملاحظے کے لئے وزیر اعظم کو بھیجی گئی تھی۔ بھٹو صاحب تاریخ دان تھے مگر نہیں سمجھ سکے کہ فرد کی ذکاوت اگر شفافیت سے گریزاں ہو اور بلامقابلہ انتخاب کا شوق پال لے تو گھات میں بیٹھے طالع آزماؤں کے جال میں پھنس جاتی ہے۔ آئین معطل کر دیا گیا، قوم کی رگوں میں دوڑتے لہو کو منجمد کر کے زندگی کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔ بھٹو صاحب شہید کر دیے گئے۔ تب سے عدلیہ کا قلم لیڈی میکبتھ نے اپنی لہو آلود انگلیوں میں تھام رکھا ہے۔ اس ناانصافی کا داغ بحیرہ عرب سے بھی نہیں دھلے گا۔ آمریت کو قومی مفاد سے غرض نہیں ہوتی، فقط دو تقاضے ہوتے ہیں۔ جواز اور لامتناہی طوالت۔ جواز تو عدلیہ سے مل گیا، طول اقتدار کے لئے اسلامی نظام کی مچان پر بیٹھ کر افغان جہاد کا ڈول ڈالا گیا۔ اب ہمارے زعما سربزانو بیٹھے ہیں کہ مشرق و مغرب میں ایک جیسے لاینحل مسائل درپیش ہیں۔ اے سخن اب ترے پیچاک کسے ڈھونڈتے ہیں۔

اس دوران دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہمارے حصے میں سیاست کی کم مائیگی آئی۔ شماتت ہمسایہ ہمارا مقدر ٹھہری۔ تمدن کا جنازہ نکل گیا، غربت نے ہمارا گھر دیکھ لیا۔ قرضوں نے پاؤں میں زنجیر ڈال دی۔ تعلیمی پسماندگی نے معاشی ترقی کے راستے مسدود کر دیے۔ یہ تین نسلوں کی رائیگانی کا نوحہ ہے۔ غضب خدا کا، معیشت کو بڑھاوا دینے والی کپاس کے روایتی علاقوں میں ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ رقبے پر گنا کاشت کیا گیا ہے۔ کپاس کے ناقص بیج کی فراہمی الگ ہے۔ ادھر شرح نمو اس تیزی سے بڑھ رہی ہے جیسے غریب اسکول ماسٹر وڈیرے کے بچے کو امتحان میں نمبر دیتا ہے۔ کچھ خبر لیجئے۔ افغان بحران دستک دے رہا ہے، اگلی سہ ماہی میں مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے۔ قومی خودداری کے موضوع پر تقریر تو دل پذیر تھی لیکن آئی ایم ایف میں کچھ معاملات اٹکے ہیں۔ اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا۔ قوم کے منتخب نمائندوں کی ناک رگڑنے کا شوق باقی ہے تو 5 جولائی کا آسیب بھی یہیں کہیں موجود ہے۔ 5 جولائی 77 یوم سیاہ سہی، جولائی 2021 میں کسی روشن صبح کا کوئی امکان پیدا کیجئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین