• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک دوست اپنے کاروبار کے سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کرتے رہتے ہیں اور واپس آکر ان ملکوں کی عجیب و غریب کہانیاں سناتے ہیں۔ ایک دن ہم نے اُن سے پوچھا کہ بیرونی دنیا میں پاکستان کے بارے میں کیا تاثر پایا جاتا ہے تو اُنہوں نے بغیر توقف کے جواب دیا کہ پاکستان کے بارے میں ہر جگہ کم و بیش یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ ملک دہشت گردوں کی جنت ہے اور یہاں دہشت گردی کو روکنے کے لئے حکومتیں کوئی اقدامات نہیں کرتیں۔
یہ تاثر بہت حد تک حقیقت کے قریب قریب محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے لیکن اسے روکنے کے لئے اب تک ایسی کوشش نہیں ہوئی ہے جسے پاکستان کے عوام یا بیرونی دنیا کے لوگ ایک بڑی اور سنجیدہ کوشش قرار دے سکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کے پاس دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوئی واضح حکمت عملی بھی نہیں ہے اور سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے اسباب کا بھی اب تک تعین نہیں کیا جاسکا ہے۔ خود سیاسی قیادت اس معاملے پر اختلافات کا شکار ہے اور ریاستی ادارے بھی کوئی متفقہ رائے قائم نہیں کر سکے ہیں اور پھر دہشت گردی نے ایک مخصوص سیاسی اور اقتصادی مفاد کو جنم دے دیا ہے۔ یہ مخصوص مفاد اب اس دہشت گردی کو ختم نہیں ہونے دیتا۔ اسی مخصوص مفاد نے معاملات کو اس قدر اُلجھا دیا ہے کہ کوئی سچ بات کہنا بھی چاہے تو نہیں کہہ سکتا۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں بدامنی بھی ہے اور دہشت گردی کی وارداتیں بھی ہوتی ہیں لیکن وہاں کی حکومتیں‘ سیاسی قیادت‘ ریاستی ادارے اور عوام دہشت گردی کے اسباب پر اُلجھن کا شکار نہیں ہوتے اور نہ ہی دہشت گرد ”نامعلوم“ ہوتے ہیں۔ علیحدگی پسند کوئی کارروائیاں کرتے ہیں تو اُن کے بارے میں سب کو پتہ ہوتا ہے۔ نسلی‘ لسانی‘ فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات میں بھی فریقین نمایاں ہوتے ہیں اور یہ واضح ہوتا ہے کہ کس سے بات کرنی ہے۔ ریاستی ادارے بھی فسادات کی آڑ میں بیرونی قوتوں کی مداخلت یا خفیہ کردار پر بھی نظر رکھتے ہیں اور حتی الامکان انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں سیاسی اور ریاستی اداروں کے ذمہ داران بھی بدامنی کے پیدا کردہ مخصوص مفاد کے جال میں نہیں پھنستے ہیں یا پھنسانے کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں کیونکہ دنیا کے انتہائی غریب اور شورش زدہ ملکوں میں بھی احتساب کا نظام اس قدر کمزور نہیں ہوتا ہوگا جس قدر پاکستان میں ہے۔ گزشتہ تین عشروں کے دوران مسلسل دہشت گردی میں جتنے لوگ پاکستان میں مارے گئے ہیں‘ اتنے شاید دنیا کے کسی دوسرے ملک میں جنگوں اور خونریز تصادموں میں بھی نہیں مارے گئے ہوں گے۔ لیکن ہماری قیادت کھل کر یہ نہیں بتا سکتی کہ دہشت گردی کے ذمہ دار فلاں نسلی‘ لسانی اور فرقہ وارانہ گروہ ہیں۔ دہشت گردوں کو دہشت گرد نہ کہنے کی وجہ سے دہشت گردی کا سدباب بھی نہیں ہورہا ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ طالبان دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد ہمارے پاس بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا لہٰذا ہم نے بھی ایک جواز تلاش کر لیا اور کہیں کہیں ”نامعلوم“ لوگوں کی جگہ طالبان کا نام لینا شروع کر دیا۔ طالبان کی اصطلاح آنے سے بھی دو عشرے پہلے پاکستان میں دہشت گردی ہورہی تھی۔ یہ دہشت گردی جنرل ضیاء الحق کے ابتدائی دور میں ہی شروع ہوچکی تھی جو طویل عرصے تک ”نامعلوم“ لوگوں کے کھاتے میں ڈالی جاتی رہی پھر طالبان سامنے آئے تو ”نامعلوم“ لوگوں پر بوجھ کم ہوا۔ طالبان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان سے کس کو فائدہ ہورہا ہے۔ اب تو بہت سے ”نامعلوم“ گروہوں کی کارروائیاں بھی طالبان اپنے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں۔ اس سے اُن قوتوں کے لئے آسانی پیدا ہوگئی ہے جو دہشت گردی کو اپنے سیاسی اور اقتصادی مخصوص مفاد کے لئے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔ اُن کے پاس آج بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ طالبان کے منظر عام پر آنے سے اور ذمہ داریاں قبول کرنے سے پہلے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کون کررہا تھا۔ 80ء کے عشرے کی ابتدا میں کراچی سمیت پورے ملک میں ہونے والے بم دھماکے اور قتل عام کون کراتا رہا۔ یہ بات بھی آج تک لوگوں کو سمجھ میں نہیں آئی کہ سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ساتھ لڑنے والے گروہ اچانک امریکہ کے دشمن کیسے بن گئے اور آج امریکہ پاکستان کے بعض حلقوں پر طالبان کی سرپرستی کا الزام کیوں لگا رہا ہے اور پاکستان امریکی سی آئی اے اور اُس کے اتحادی ممالک کے خفیہ اداروں پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام کیوں لگا رہا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ معاملات کو الجھائے رکھنے والی کیفیت سے نکلا جائے اور اُس مخصوص مفاد کے خلاف جنگ کی جائے جو پاکستان میں دہشت گردی کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔ یہ جنگ اس قدر آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو مل بیٹھ کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانی ہو گی لیکن اس سے پہلے اُس مخصوص مفاد کی جرأت مندی کے ساتھ نشاندہی کرنا ہوگی جو قیام پاکستان کے وقت سے کام کررہا ہے اور اب اس نے اپنے پیچیدہ جال بُن رکھے ہیں۔ بیرونی قوتوں نے اس مخصوص مفاد کو تقویت پہنچاتے ہوتے پاکستان میں مداخلت کے راستے بنائے اور اب وہ پاکستان کو ڈکٹیٹ کرتی ہیں۔ اس مخصوص مفاد کی نشاندہی اُن گروہوں نے کردی ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے طاقتور حلقے شروع دن سے پاکستان کو ایک مخصوص ”لسانی فرقہ وارانہ“ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس حلقے نے مخصوص لسانی اور فرقہ وارانہ گروہوں کو پاکستان کی جمہوری قوتوں کے مقابلے میں نہ صرف اپنا ”سیاسی اتحادی“ قرار دیا ہے بلکہ اُنہیں طاقت کے استعمال کی بھی مکمل آزادی کے ساتھ ساتھ تحفظ بھی حاصل ہے۔ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ پنجاب‘ گلگت بلتستان اور قبائلی علاقہ جات میں جو کچھ ہورہا ہے اس مخصوص سوچ کا بنایا ہوا ”ڈیزائن“ ہے تاکہ پاکستان کو قومی جمہوری ریاست نہ بننے دیا جائے اور سیاسی ارتقاء کو اپنی مرضی کا رُخ دیا جاسکے۔ دہشت گردی کے خلاف اگر کوئی قومی حکمت عملی بنائی جائے تو اس میں نہ تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کو نظر انداز کیا جائے اور نہ ہی اُبھرتے ہوئے اس تاثر کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ پاکستان کی فوج نے اپنے نظریئے میں پہلے ہی تبدیلی کی ہے اور اندرونی دہشت گردی کو ملک کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے دہشت گردی کے اُن اسباب کی طرف توجہ دی جائے جنہیں ماضی میں شعوری طور پر نظر انداز کیا گیا۔ کسی نہ کسی کو اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرکے یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ دہشت گردی سے متعلق ماضی کی اپروچ غلط تھی۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف پہلے ملک کی سیاسی قیادت کو ایک ساتھ بٹھا کر دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کی پالیسی بنائیں اُس کے بعد وہ سیکورٹی اداروں کے ساتھ مل کر قابل عمل حکمت عملی وضع کریں، مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔
تازہ ترین