• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں امریکہ کے کل چند فوجی ہلاک ہوئے لیکن اس کے برعکس لاکھوں افغان طالبان، سیکورٹی فورسز یا پھر عام شہری لقمہ اجل بنے۔ پاکستان میں ستر ہزار سے زائد فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو بھی مار ڈالا۔

بڑی حد تک القاعدہ کو کمزور کیا اور طالبان سے بھی یہ گارنٹی لے لی کہ وہ القاعدہ اور داعش وغیرہ سے تعلق رکھیں گے اور نہ اپنی سرزمین انہیں امریکہ کے خلاف استعمال کرنے دیں گے۔ یوں امریکہ کے مقابلے میں پاکستان اور افغانستان کا نقصان بہت زیادہ ہے۔

مستقبل کے لئے اس کو کوئی خطرہ بھی نہیں رہا اور فوجیوں کے نکلنے کے بعد اس کے مالی نقصان کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن بہر حال اس طرح بھی نہیں ہو سکا جس طرح کہ امریکہ نے چاہا تھا۔ بظاہر اسے شکست ہوئی ہے لیکن امریکہ میں خاموشی ہے۔

ویت نام جنگ کے بعد جس طرح امریکی صحافت اور سیاست میں اس کا تذکرہ ہو رہا تھا اور جس طرح امریکہ میں یاد گاریں بن رہی تھیں، ویسا کچھ نہیں ہورہا۔ ڈیمو کریٹس، ری پبلکن کو طعنہ دے رہے ہیں کہ انہوں نے ایسی جنگ کیوں چھیڑی اور نہ ری پبلکن ڈیمو کریٹس پر انگلی اٹھا رہے ہیں کہ افغانستان کو تباہی کے سپرد کرکے فوج کیوں نکالی۔ اسی طرح امریکہ کے نیٹو اتحادی بھی شور نہیں مچارہے کہ امریکہ نے اپنے ساتھ ان کو بھی ذلیل کیا۔

اب کامن سینس کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی سیاست اور صحافت کے میدانوں میں اس وقت طوفان برپا ہونا چاہئے تھا لیکن وہاں ایک پُراسرار خاموشی ہے۔ اس کے برعکس امریکی قیادت نہ صرف مطمئن ہے بلکہ وہ افغانستان کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہتی۔

افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ وائٹ ہائوس کی ملاقات کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن چند منٹ کیلئے ایسے بیٹھے تھےکہ جیسے کسی نے جبراً انہیں بٹھایا ہو۔ ان کے ہاں کوئی گرمجوشی نہیں تھی۔ کاغذ پر لکھے ہوئے پوائنٹس پڑھ رہے تھے اور بات کو مختصر سے مختصر کررہے تھے۔

پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر اشرف غنی کے چہرے کے تاثرات اور واپسی پر ڈاکٹر عبدﷲ عبدﷲ کے اس بیان کہ افغانستان کی تقسیم کا خطرہ ہے، سے لگتا ہے کہ جوبائیڈن کی طرف سے یہی جواب ملا ہے کہ آپ لوگ جانیں اور افغانستان جانے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ رویہ انتہائی پُراسرار ہے اور ان کے اطمینان کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔

دوسرا پُراسرار عمل افغان فوج کا پے در پے سرنڈر ہے۔ یقیناً اس وقت طالبان کا مورال بہت بلند ہے۔ ماضی کی بنیاد پر طالبان کی دہشت بھی لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھی ہے لیکن یہی افغان فوج گزشتہ دو سال سے طالبان سے لڑرہی تھی اور اسی لئے کسی ایک ضلع کو بھی مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں جانے نہیں دیا۔ اب یہ امر حیرت انگیز ہے کہ چند درجن طالبان کے آگے، سینکڑوں فوجی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

ماضی کے برعکس طالبان ان کو جیب خرچہ اور کلاشنکوف دے کر عزت و احترام سے رخصت کردیتے ہیں جبکہ امریکیوں کا چھوڑا ہوا بھاری اسلحہ وہ طالبان کے حوالے کرلیتے ہیں۔ یہ عمل صرف جنوبی اور مشرقی صوبوں میں نہیں بلکہ شمالی اور مغربی افغانستان کے تاجک، ازبک اور ترکمن صوبوں میں بھی ہورہا ہے جو حیران کن ہے۔

ایک اور پُراسرار عمل یہ ہے کہ مشرقی اور جنوبی افغانستان کی نسبت شمالی اور مغربی افغانستان میں طالبان زیادہ اضلاع پر قبضہ کررہے ہیں۔ اگر پاکستان کی سرحد سے منسلک صوبوں مثلا پکتیا، پکتیکا، خوست، یا پھر جنوبی صوبوں جیسے قندھار، ہلمند اور زابل وغیرہ جیسے پختون صوبوں میں ایسا ہوتا تو ہمیں کوئی حیرت نہ ہوتی لیکن ان علاقوں کی بجائے زیادہ اضلاع شمالی اور مغربی افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں میں آرہے ہیں۔

مثلاً چینی، پاکستان اور تاجکستان سرحد سے متصل صوبہ بدخشان طالبان کے گزشتہ دور میں بھی ان کی دسترس میں نہیں آیا تھا لیکن اب اس تاجک صوبے کے کئی اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ۔

کندوز تاجکستان سرحد سے جڑا صوبہ ہے جس کے انٹری پوائنٹ شیرخان بندر پر طالبان قابض ہوچکے۔ اسی طرح جوزجان اور فاریاب جیسے مغربی اور ازبک یا ترکمن صوبوں میں کئی اضلاع طالبان کے زیرقبضہ آگئے ہیں۔ تخار، جو طالبان کے گزشتہ دور میں شمالی اتحاد کا ہیڈکوارٹر تھا،میں بھی ایک ضلع پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔

یوں جنوب اور مشرق کی بجائے زیادہ تعداد میں مغرب اور شمال میں افغان فوج کا سرنڈر ہونا اور طالبان کی فتوحات پُراسرار بھی ہیں اور بظاہر سمجھ میں بھی نہیں آتیں۔

مزید پُراسرار عمل افغان وزیر دفاع اسدﷲ خالد کا پُراسرار طور پر منظر سے ہٹ جانا ہے ۔ وزیردفاع بن جانے کے بعد وہ گزشتہ دو سال ڈٹ کر طالبان کے خلاف لڑے اور خود فوجی یونیفارم پہن کر مختلف محاذوں پر جنگ کی کمانڈ کرتے رہے۔ اب چند روز قبل وہ پُراسرار طور پر منظر سے غائب ہوگئے ۔

ادھر ضلع کے اوپر ضلع طالبان کی جھولی میں گررہا تھا اور ادھر وزیر دفاع نظر نہیں آرہے تھے۔ کئی روز بعد پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں اور علاج کے لئے امریکہ گئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اشرف غنی نے ان کی جگہ حامد کرزئی دور کے بسم ﷲ خان کو نیا وزیردفاع مقرر کیا جبکہ آرمی چیف کو بھی تبدیل کیا۔

یہ بھی پُراسرار عمل ہے کہ طالبان سو سے زائد اضلاع پر تو قابض ہوگئے لیکن کسی صوبائی ہیڈکوارٹر پر قبضہ نہیں کررہے حالانکہ اگر وہ چاہیں تو کئی صوبوں کے ہیڈکوارٹرز کو آسانی کے ساتھ اپنے زیر تصرف لاسکتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کچھ قوتوں کے ساتھ یہ انڈرسٹینڈنگ ہوچکی ہے کہ سردست وہ صوبائی ہیڈکوارٹرز پر قبضہ کی کوشش نہیں کریں گے۔

اب یہ ایک اور پُراسرار عمل ہے۔ ترکی جو پاکستان کا دوست لیکن چین کا مخالف ہے، کا اچانک میدان میں کودنا بھی نہایت پُراسرار ہے۔ ان حالات میں ترکی کا کابل ایئرپورٹ کی سیکورٹی کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہونا بڑا رسکی عمل ہے۔

اسی طرح ترکی نے وسط ایشیائی ممالک میں بھی دلچسپی اچانک بڑھا دی ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ترکی کا اچانک اور ضرورت سے زیادہ تحرک بھی پُراسرار ہے لیکن ترکی چونکہ پاکستان کا دوست ملک بھی ہے اس لئے میں سردست مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔

تازہ ترین