• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلی مثال:چند روز پہلے پلڈاٹ کے روح رواں احمد بلال محبوب صاحب نے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں نے برطانوی جریدے اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس سے پہلے کی نارمل دنیا کیسی تھی اور آج اِس وبا کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد مختلف ممالک کی کیا صورتحال ہے۔ جریدے نے مختلف اعداد و شمار کی مدد سے معمول کی زندگی ماپنے کا ایک اشاریہ مرتب کیا جسے اُس نے Global Normalcy Indexکا نام دیا ہے، اِس اشاریے کے مطابق وبا سے پہلے معمول کی دنیا اگر 100 پوائنٹس پر تھی تو آج کی دنیا 66پوائنٹس پر ہے، بدترین وقت اپریل 2020کا تھا جب یہ عالمی اشاریہ 35پوائنٹس پر تھا۔ اصل بات جس کے لئے محبوب صاحب نے ٹویٹ کیا وہ یہ تھی کہ انڈیکس کے مطابق اِس وقت پاکستان 84.4پوائنٹس کے ساتھ تیسرے نمبر ہے، ہم سے اوپر صرف ہانگ کانگ اور نیوزی لینڈ ہیں۔ اِس حیرت انگیز کامیابی کے باوجود زیادہ تر امیر ممالک نے پاکستان کو اپنی سفری فہرستوں میں بدستور نچلے درجوں پر رکھا ہوا ہے۔ سوائے امریکہ کے کوئی ایسا قابلِ ذکر ملک نہیں جہاں ہم پاکستانی متمول ممالک کے شہریوں کی طرح کڑی شرائط کے بغیر سفر کر سکیں۔ اکثر یورپی ممالک نے آپس میں تو ایک دوسرے پر سفری پابندیاں ہٹا لی ہیں مگر پاکستان پر تا حال برقرار ہیں، برطانیہ نے بھی پاکستان کو سرخ درجے میں رکھا ہوا ہے، کینیڈا کے سفر کیلئے بھی قرنطینہ ضروری ہے، امارات نے بھی پاکستان کے لئے اپنی پروازیں بند کر دی ہیں حالانکہ یہ تمام ممالک معمولات زندگی کے عالمی اشاریے میں پاکستان سے کہیں نیچے ہیں۔ اِس طرز عمل کو سوائے بدمعاشی کے اور کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔

دوسری مثال :تین سال پہلے میرے ایک دوست نے برادر ملک میں سرمایہ کاری کی ،ڈیل یہ تھی کہ اگر آپ اپارٹمنٹ خرید لیں گے تو اُس کے مالکانہ حقوق آپ کے نام کرنے کے بعد یہ ضمانت بھی دی جائے گی کہ اُس کا کم سے کم کرایہ آپ کو باقاعدگی سے ہر سال ادا کیا جائے گا۔ پہلی بے ضابطگی تو یہ ہوئی کہ اپارٹمنٹ کی اقساط مقررہ وقت کے اندر ادا کرنے کے باوجود اپارٹمنٹ کا قبضہ وقت پر نہیں ملا، یعنی وہی کام جو ہمارے ہاں کوئی نا خلف قسم کا بلڈر کرتا ہے۔ دوسری بدمعاشی اُس کمپنی نے یہ کی کہ اپنے معاہد ے سے مکر گئی اور محض پہلے سال کرایہ ادا کرنے کے بعد دوسرے سال سے یہ سلسلہ بند کر دیا۔ میرے دوست نے پھر یہ اپارٹمنٹ خود کرائے پر دے دیا، چند ماہ تک اُس کا کرایہ آیا مگر اُس کے بعد کرائے دار نے نہ صرف کرایہ بند کر دیا بلکہ قبضہ بھی نہیں چھوڑا۔ آج میرا دوست اُس ملک میں وکیل تلاش کرتا پھر رہا ہے جو اسے اِ ن مشکلات سے باہر نکالے اور اُس کے اپارٹمنٹ کا قبضہ واپس دلوائے۔ کچھ لوگوں نے اُس کمپنی کے خلاف مقدمہ بھی دائر کر رکھا ہے جس نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی مگر شنوائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ کمپنی کے مالک وہی ہیں جو اُس ملک کے مالک ہیں۔

تیسری مثال: ایک پاکستانی اداکارہ گزشتہ برس کینسر کا شکار ہو گئیں، علاج کے لئے انہیں برطانیہ جانا پڑا جہاں قریباً ایک سال تک وہ زیر علاج رہیں اور پھر بالآخر شفا یاب ہوئیں۔ دو روز پہلے وطن واپسی کے لئے انہوں نے برٹش ائر ویز کا ٹکٹ لیا، ہوائی اڈے پہنچیں اور جہاز میں سوار ہو گئیں مگر پھر اچانک انہیں سفری دستاویز میں کسی سقم کی وجہ سے جہاز سے اتار دیا گیا۔ وہ وہیل چیئر پر تھیں اور اُ ن کے پاس تین بھاری بھرکم سوٹ کیس تھے، بجائے اِس کے کہ برٹش ائر ویز اُن کی مدد کرتی اور کم از کم ہوائی اڈے سے نکلنے کے لئے ہی انہیں کسی گاڑی میں بٹھا دیتی، کمپنی نے انہیں ہیتھرو ایئر پورٹ پر تنہا چھوڑ دیا جہاں وہ بغیر کسی مدد کے چار گھنٹے تک بے یار و مدد گار بیٹھی رہیں، انہوں نے ایئر لائن کے اہلکاروں کی منت سماجت کی کہ وہ اکیلی چلنے کے قابل نہیں اُن کی مدد کی جائے مگر کسی نے نہ سنی، بالآخر اُن کی ایک بوڑھی خالہ نے آکر انہیں سنبھالا اورگرتی پڑتی اپنے ساتھ لے گئیں۔ یہ سب ہیتھرو کے ہوائی اڈے پرہوا، جہاں ہر وقت ایک میلے کا سا سماں رہتا ہے، ایئر لائن بھی گوروں کی تھی جو ہم سے کہیں زیادہ مہذب ہیں اور جنہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک کھانا ختم کرنے کے بعد چھری کانٹا ایک دوسرے کے ساتھ متوازی رکھنا چاہئے تاکہ پروسنے والے کو پتا چل سکے کہ گورا صاحب کھانا تناول فرما چکے ہیں۔

مجھ سمیت اکثر کالم نگار مغربی اور یورپی ممالک کی مثالیں دینے نہیں تھکتے کہ وہاں ہر شخص خوش اخلاقی کا پتلا بنا پھرتا ہے، اُن کے ہاں کوئی قانون سے بالا تر نہیں ،وہ انصاف پسند قومیں ہیں، یہی اُن کی ترقی کا راز ہے ،وغیرہ وغیرہ۔ اور جب ہم اِن سُپر ممالک کی مثالیں دے دے کر تھک جاتے ہیں تو پھر ہم اماراتی بھائیوں کے گُن گانے شروع کر دیتے ہیں کہ آخر وہ بھی تو ملک ہیں جہاں کوئی کسی کی جائیداد پر قبضہ نہیں کرتا اور عدالتیں برسوں میں نہیں ہفتوں میں مقدمے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ اِن تین مثالوں سے آپ اِن ممالک کے پورے نظام کو ہی ناکارہ قرار دے ڈالیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم اِن ممالک کے بارے میں کچھ زیادہ ہی حسن ظن رکھتے ہیں۔ معمولات زندگی کا عالمی اشاریہ جو خود برطانوی جریدے کا مرتب کردہ ہے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان نارمل ممالک کی فہرست میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے مگر امیر ملکوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ڈنکے کی چوٹ پر اُس ملک میں پراپرٹی انوسٹمنٹ کے نام پر فراڈ ہوا جس ملک کے بارے میں یہ کہتے ہوئے ہم ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ وہاں بادشاہت تو ہے مگر قانون کی حکمرانی کے ساتھ، یہ بھی خوش فہمی ہی نکلی۔ برٹش ایئر ویز کی مثال بھی صرف یہ بتانے کے لئے دی ہے کہ جب تک آپ کو اِن ممالک میں کسی مصیبت سے پالا نہیں پڑتا اُس وقت تک آپ ایک خوش و خرم سیاح کی طرح وہاں گھومتے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم دودھ کے دھلے ہیں اوراُن میں دنیا جہان کی خرابیاں ہیں، بے شک انہو ں نے ہم سے بہتر نظام تشکیل دیا ہے مگر فی الحال Global Normalcy Index نے اِن نام نہاد مہذب ممالک کی انصاف پسندی کا پول کھول دیا ہے، پاکستان سے تعصب کا رویہ برتنے پر اِن ممالک کو شرم آنی چاہئے۔

تازہ ترین