• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں امریکی فوجی قوت کی علامت بگرام ایئربیس سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے20سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا۔ دارالحکومت کابل سے 40کلو میٹر دور شمال میں واقع بگرام ایئر بیس کو امریکہ افغان جنگ کے دوران امریکی و اتحادی افواج کا مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا تھا اور اس ایئر بیس کو گزشتہ 20سال سے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔

بگرام ایئر بیس کو تاریخی حیثیت حاصل ہے جسے 1980کی دہائی میں افغانستان پر قابض سوویت افواج نے افغان جنگ کے دوران تعمیر کیا تھا اور یہ ایئر بیس سوویت افواج کا اہم مرکز تھا تاہم 9/11 کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملے کے بعدبگرام ایئر بیس کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ افغانستان کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل بگرام ایئر بیس کے 2 رن وے ہیں جہاں بڑے کارگو اور بمبار طیارے لینڈ کرسکتے ہیں۔ بگرام ایئر بیس پر طیاروں کی پارکنگ کیلئے 100 جگہیں مختص ہیں جن کی حفاظت کیلئے بم پروف دیواریں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ ایئر بیس کی حفاظت کیلئے راکٹوں اور گولہ باری سے بچاؤکا امریکی حفاظتی سسٹم موجود ہے، جسے تربیت یافتہ امریکی فوجی چلاتے ہیں اور انہیں ہیلی کاپٹرز کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔ بگرام ایئر بیس میں 10ہزار فوجیوں کی رہائش کا بھی انتظام ہے جن کیلئے 50 بستروں پر مشتمل اسپتال، ٹراما سینٹر اور 3 آپریشن تھیٹرز بھی قائم ہیں۔

بگرام ایئر بیس پر امریکی افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عقوبت خانے بھی قائم کر رکھے تھے، اسی لئے بگرام ایئر بیس کو کیوبا میں واقع بدنام زمانہ امریکی جیل ’’گوانتاناموبے‘‘کے بعد دوسرا ’’گوانتاناموبے‘‘ تصور کیا جاتا تھا۔ ان عقوبت خانوں میں طالبان اور القاعدہ رہنمائوں کو بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھاجس کا انکشاف کچھ سال قبل امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا تھاجہاں سے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد آپریشن کیلئے امریکی فوجی ہیلی کاپٹرز بگرام ایئر بیس سے ہی اڑ کر پاکستان میں داخل ہوئے اور آپریشن کے بعد اسامہ کی لاش کو بگرام ایئر بیس لایا گیا۔ پاکستان میں لوگوں کو بگرام ایئر بیس پر مسلمان قیدیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا اس وقت پتہ لگا جب وہاں قید ایک پاکستانی قیدی معظم بیگ نے رہائی کے بعد اپنی کتاب "Enemy Combatant" میں ایئر بیس میں قید مسلمان قیدیوں پر ہونے والے مظالم کا انکشاف کیا۔انہوں نے اپنی کتاب میں بگرام ایئر بیس کے عقوبت خانے میں موجود خاتون قیدی نمبر 650کی دردناک چیخوں کا بھی ذکر کیا جو دراصل ڈاکٹر عافیہ صدیقی تھیں، جو ابھی تک امریکہ میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں۔

11 ستمبر 2021کو امریکہ افغان جنگ کے 20 سال مکمل ہونے والے ہیں اور امریکی و اتحادی افواج کے آخری دستے چند روز میں افغانستان سے چلے جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں تقریباً42 ہزار افغان شہری اور 70ہزار سے زائد افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ 2442 امریکی اور 1144اتحادی فوجیوں کے علاوہ تقریباً 3800امریکی نجی ٹھیکیدار بھی امریکہ افغان جنگ کے دوران مارے گئے۔ اس جنگ پر امریکی اخراجات کا تخمینہ 20کھرب 260ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔امریکہ کی افغانستان سے پسپائی اور فوجی انخلا کو ویت نام جنگ میں امریکی شکست سے تعبیر کیا جارہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ، افغانستان میں جنگ ہارچکا ہے۔

اسٹرٹیجک اور علامتی اعتبار سے اہم تصور کئے جانے والے بگرام ایئر بیس کو امریکہ ایسے وقت میں خالی کرکے جارہا ہے جب طالبان، افغانستان کے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کررہے ہیں اور ان کی نظریں بگرام ایئر بیس پر لگی ہوئی ہیں جہاں امریکی و اتحادی افواج کے اثاثوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے اور یہ طالبان کا اہم ہدف بھی ہے، اس لئے اب افغان سیکورٹی فورسز کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ شہر کے اندر موجود اس شہر کو کیسے قابو میں رکھ سکتی ہیں، امریکی صدر جوبائیڈن پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ افغان حکومت کو اپنے دفاع کا فن خود سیکھنا ہوگا۔ ایسے میں جب امریکہ افغانستان میں اپنی طویل اور مہنگی ترین جنگ کا باب بند کرنے کی تیاری کررہا ہے اور اپنے مضبوط قلعہ بگرام ایئر بیس پر لہراتا جھنڈا اتارکر اور اِسے چھوڑ کر جاچکا ہوگا تو جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کے چہرے پر بگرام ایئر بیس ایک سیاہ داغ کی مانند رہے گا۔

تازہ ترین