• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کا کالم مبارکباد سے شروع کروں یا اپنی ناکامی کے اظہار سے۔ مبارکباد اس بات کی کہ ایک بار پھر ہمارے ملک کے وزیر اعظم کا دورہ کامیاب ہو گیا۔ انہی کا نہیں اسحٰق ڈار کا دورہ بھی کامیاب رہا۔ ہمیشہ کی طرح ہم قرض لیکر واپسی پر قوم کو نوید سناتے ہیں کہ مبارکباد ”ہم کامیاب ہوئے“ سو جناب ہم یقینا من حیث القوم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اب یہاں موٹر وے کا جال بچھ جائے گا، کراچی سے لاہور تک موٹر وے بنے گی، چین کی طرح دنیا کی تیز ترین ٹرین چلے گی۔ یہ جو اس وقت ریلوے سروس موجود ہے یہ نہ بھی چل پائے تو کیا۔ تیز ترین ٹرین کے ہوتے ہوئے ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ شہر خوبصورت ہوں گے، فوارے لگیں گے، باغات ہو ں گے، 200 کلومیٹر طویل سرنگوں اور 75 پلوں پر مشتمل ریلوے ٹریک بنے گا، لاہور ہانگ کانگ سے بہتر شہر بن جائے گا۔ یہ سب سن کر کون بے وقوف ہو گا کہ جو واہ واہ نہیں کر اٹھے گا۔ مگر کیا کروں ان خطوط کا مجھے تسلسل سے عام آدمی کے کرب اور اذیت کے بارے میں بتاتے ہیں؟ کیا کروں اس دکھ کا جو مجھے یہ جان کر ہوتا ہے کہ میں اپنی تمام تر کاوش کے باوجود کسی غریب کے سر پر چھت ہی دے سکتا؟ کسی بے آسرا بیٹی کا بیاہ نہیں کروا سکتا۔ اس سے پہلے کہ مزید کچھ کہوں ذرا یہ کچھ خطوط پڑھ لیجئے!
1…صرف ایک لاکھ اور پانچ ہزار چھ سو کا سوال
قابل احترام عبدالرؤف صاحب! امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ میرا نام محمد یوسف ہے اور میں ایک مڈل پاس محنت کش ہوں۔ دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ میرے بچے سکول جانے کی بجائے گندگی کے ڈھیروں سے رزق حلال تلاش کرتے ہیں۔ عبد الرؤف صاحب 2008ء میں ، میں نے تین مرلہ گھر بنانے کے لئے HBFC(ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن) سے قرضہ لیا۔ میں 2011ء تک باقاعدہ اقساط ادا کرتا رہا لیکن جولائی 2011ء کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے باقاعدہ قسط ادا نہ کر سکا اور سود میں اضافہ ہوتا گیا۔ قرض اب ایک لاکھ پانچ ہزار روپے بن چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ اب ہاؤس بلڈنگ نے میرے گھر کی نیلامی کے لئے اشتہار دے دیا ہے اور عنقریبگھر کی نیلامی ہے۔ رؤف صاحب میں سخت پریشان ہوں کہ میرے بچوں سے چھت کا سایہ چھن رہا ہے۔ رؤف صاحب یہ دنیا آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی آباد ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میرے اس خط کو ضرور شائع کریں گے تاکہ کوئی دردمند دل رکھنے والا میرا مسئلہ حل کر سکے۔
محمد یوسف ولد محمد یعقوب، خسرہ نمبر 44 لیوٹ لنڈی ڈاگ بنوں
2… جناب عبد الرؤف صاحب
میرا نام حمید اللہ ہے۔ محترم میں 1988ء میں جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ہونے والے ایک دھماکے میں ایک پاؤں سے معذور ہو گیا تھا۔ اس کے بعد معذوری کے باوجود جیسے تیسے کر کے میں اپنے گھر کا خرچ چلاتا رہا اور گزارا لائق زندگی بسر کرتا رہا۔ میری ایک بیٹی ہے کہ جس کی شادی کے لئے میں نے پیٹ کاٹ کر کچھ چیزیں جمع کی تھیں لیکن 2010ء کے سیلاب میں رضائیاں، گدے، کپڑے، برتن وغیرہ سب اس کی نذر ہو گئے اور اس کے بعد میں ایک دفعہ پھر دربدر ہو گیا۔ محترم میں بازار کے مختلف فٹ پاتھوں پر لوگوں کی حجامت کر کے گزارا کیا کرتا تھا لیکن پشاور کے خراب حالات کے باعث یہ کام بھی بند ہو گیا کہ نجانے کب کوئی دھماکہ ہو جائے۔ محترم میری بیٹی کی شادی سر پر ہے اور میرا ہاتھ خالی ہے، مجھے 90ہزار روپے کی اشد ضرورت ہے تاکہ میں اپنی بیٹی کو عزت سے رخصت کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھ کر چند الفاظ اپنے کالم میں ضرور لکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور سکون دے۔
آپکا معذور پاکستانی بھائی حمید اللہ مکان نمبر 4 محلہ گلبہار ڈاکخانہ جی پی او پشاور
3…مسٹر عبدالرؤف صاحب آداب!
سر میرا نام کرامت اللہ ہے اور گھر کے پانچ افراد کی ذمہ داری مجھ پر ہے ۔میں ایک وفاقی ادارے میں چپڑاسی ہوں۔ اپنی غربت سے پریشان ہو کر میں مجبور اً آپ کو اپنی داستان لکھ رہا ہوں۔ میرے والد امراض قلب میں مبتلا تھے۔ میں نے اپنے والد کے آپریشن کے لئے رشتہ داروں اور عزیزوں سے قرض لیا لیکن آپریشن کے باوجود میرے والد اس دنیا میں نہ رہے۔ تین چار ماہ بعدہی قرض داروں نے قرض واپسی کے تقاضے شروع کردئیے اور تنگ کرنا شروع کردیا۔ گزشتہ حکومت نے سن کوٹے پر میری نوکری پکی کردی۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ نیشنل بینک سے ایڈوانس تنخواہیں لے لوں مجھے دو لاکھ روپے ایڈوانس تنخواہ تو مل گئی لیکن مجھے اس پر18فیصد سود سے بے خبر رکھا گیا ۔ مہنگائی کے اس دور میں میں آج بھی 6ہزار روپے ماہانہ ادا کررہا ہوں لیکن سود ابھی تک ختم نہیں ہورہا۔میں دفتر سے واپسی پر رکشہ بھی چلاتا ہوں لیکن گزارا مشکل ہے۔ سر این آر او کے تحت امیروں اور وزیروں کے اربوں کے قرضے تو معاف کردئیے گئے لیکن مجھ غریب پر ظلم جاری ہے۔میں آپ کے توسط سے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے درخواست کرتا ہوں کہ میرا بینک کا قرض معاف کر دیں۔
فقط ایک چپڑاسی کرامت اللہ ولد محمد رفیع مرحوم
اکاؤنٹ سیکشن پشاور پوسٹل مال جمرود روڈ۔ پشاور
4… جناب عبدالرؤف !
میرا نام تاج محمد ہے اور میں 1980ء سے روزنامہ جنگ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کے کالم پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو عوام اور غریب لوگوں کی آواز کو بلند کرتا ہے۔
میں آپ کو یہ خط اس لئے ارسال کررہا ہوں کہ آپ میرے جگر گوشے محمد الیاس کو اپنا بیٹا تصور کرتے ہوئے اس کا ذکر بھی کالم میں کریں گے۔ میں اپنی داستان غم بیان کرنے پر اس لئے مجبور ہوا ہوں کہ اب میرا کوئی سہارا نہیں۔ملٹری ہسپتال راولپنڈی کے ماہر امراض قلب ڈاکٹر بریگیڈئیر معاد اللہ کی تشخیص کے مطابق میرے بیٹے کے دل کا ایک وال بند ہے اور اس کا علاج آپریشن کے بغیر ممکن نہیں۔ دل کے اس آپریشن کا خرچ پانچ لاکھ روپے بنتا ہے جو کہ مجھ جیسے غریب کے بس میں نہیں، اوپر سے ستم ظریفی یہ کہ زکوٰة اور بیت المال کے تمام فنڈ بحکم سرکار منجمد ہوچکے ہیں۔ بیٹے کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جاتی لیکن کچھ کرنے کی سکت بھی نہیں ہے۔ میں گردوں کا مریض ہوں اور ماہوار ڈائلسس کرواتا ہوں۔ محنت مزدوری سے گزارا اب مشکل ہوگیا ہے، بعض اوقات میرے پاس سوات سے راولپنڈی ہسپتال جانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے ۔امید ہے کہ آپ فرشتہ رحمت ثابت ہوں گے اور آپ کے کالم کے ذریعے میرا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ والسلام
تاج محمد ولد محمد زرین مینگورہ۔ سوات
کیا کروں میں دوبارہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔ ان سب کے دکھوں کا رونا روئیں یا کامیاب دوروں والے وزیر اعظم کو مبارک باد دوں۔ عام آدمی کو سہولت دینے پر کیا خرچ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگالیں کہ جو منو بھائی نے کچھ عرصہ قبل مجھے سنایا۔ ان کے بقول تھرپارکر کے ایک گاؤں میں ایک چھوٹی بچی کو سر پرپانی کی بھاری مٹکی اٹھاتے دیکھا تو انہوں نے وہاں کے ایک افسر سے پوچھا کہ اس گاؤں تک پانی لانے کے لئے اگر حکومت کچھ کرے تو کتنا خرچ آئے گا، اس نے جواب دیا کہ اتنا ہی جتنا کسی بڑے شہر میں فوارہ لگانے پر آتا ہے
تازہ ترین