حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پانامہ لیکس پر لفظی جنگ اور سیاسی محاذآرائی کے بعد یہ اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ معاملہ بالآخر بات چیت اور افہام و تفہیم سے ہی یکسو کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں میڈیا میں آنے والی یہ تجویز خوش آئند ہے کہ وزیراعظم جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی اوآرز) پر اختلافات دور کرنے کے لئے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیں گے۔ وزیراعظم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے نام اپنے خط میں حکومت کی جانب سے کمیشن کے دائرہ کار کا تعین کرچکے ہیں جبکہ اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس میں اپنے ٹرمز آف ریفرنس مرتب کئے ہیں جنہیں حزب اختلاف کے لیڈر سید خورشید شاہ نے ایک خط کی صورت میں وزیراعظم کو پیش کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈروں کے عمومی جارحانہ رویے کے برخلاف مفاہمانہ لہجہ اختیارکرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اپوزیشن ٹی او آرز پر حکومت سے لڑائی کے موڈ میں نہیں۔ اسی لئے اس نے وزیراعظم سے استعفا نہیں مانگا۔ حکومت اپوزیشن کے ٹی او آرز نہ مانے مگر مسئلے کے متفقہ حل کے لئے ہمارے ساتھ بیٹھے تو ہم بھی گریز نہیں کریں گے۔ حکومت کی طرف سے اس کا مثبت جواب آیا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی نے بھی اگلے روز کہا کہ ہم اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہیں ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو مکمل اختیار ہے۔ وہ جس طرح چاہے تحقیقات کر سکتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ اپوزیشن کے ٹی آر اوز کا جواب تیار کرنے کے لئے جمعہ کو وزیراعظم کی قانونی ٹیم کا اجلاس ہونا طے پایا ہے جس میں اپوزیشن سے مذاکرات کا طریق کار بھی طے کیا جائے گا اور توقع ہے کہ آج یعنی ہفتے کو کوئی واضح لائحہ عمل سامنے آجائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے ٹی آر اوز میں صرف ایک بنیادی فرق ہے۔ باقی باتیں تکنیکی نوعیت کی ہیں جن پر اتفاق رائے ناممکن نہیں۔ مبصرین کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان پر ٹیکسوں کی ادائیگی سے گریز، قرضوں کی واپسی اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا تحقیقات کے بعد ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوجائے جبکہ اپوزیشن کے ٹی او آرز کی ہرسطر میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کا ذکر ہے گویا اصل ہدف وزیراعظم ہی ہیں اور بار ثبوت بھی انہی پر ڈالا گیا ہے حکومت پانامہ لیکس میں نامزد تمام پاکستانیوں کے معاملات کی تحقیقات کے علاوہ ان لوگوں کے بارے میں بھی چھان بین کرانا چاہتی ہے جنہوں نے قرضے معاف کرائے۔ اپوزیشن ان دونوں معاملات کو الگ الگ رکھنا چاہتی ہے۔ سیاسی و قانونی مبصرین کی رائے میں فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں تو ان معاملات کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ دنیابھر کے ملکوں میں سیاسی پارٹیوں اور اشخاص کی کسی مسئلے پر ضروری نہیں کہ ایک ہی رائے ہو ،سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہوسکتا ہے مگر جب وہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو اپنی بات کو حرف آخر کا درجہ نہیں دیتے ، مخالفین کی بات بھی سنتے ہیں اور قوم کے اجتماعی مفاد میں ہو تو انہیں قبول بھی کرتے ہیں، اس طرح بڑے سےبڑا مسئلہ بحث و تمحیص سے حل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی ضد اور انا کی قربانی دے کر مخاصمت کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہئے کیونکہ خیر اسی میں ہے۔ معاملے کو طول دینا کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ اس سے صرف انتشار اور عدم استحکام پیدا ہوگا جس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں پانامہ لیکس میں بیان کی گئی مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات اور ازالے پر متفق ہیں پھر کوئی وجہ نہیں کہ تحقیقات کے دائرہ کار پر اختلافات کو طول دے کر قوم کو ہیجان میں مبتلا رکھیں۔ توقع کی جانی چاہئے کہ فریقین اپنے اپنے رویوں میں جمہوری تقاضوں کے مطابق لچک پیدا کرکے ٹی آر اوز پر متفقہ دستاویز تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس سے جوڈیشل کمیشن کے قیام میں بھی مدد ملے گی اور تحقیقات کا معاملہ آگے بڑھے گا۔