• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایبٹ آباد میں نام نہاد جرگے کی جانب سے ایک معصوم طالبہ کے بہیمانہ قتل کی جو انسانیت سوز تفصیلات ایک ہفتے سے جاری تفتیش کے بعد سامنے آئی ہیں ، ان سے واضح ہے کہ وطن عزیز کے بعض علاقوں میں اب تک غیرت کے نام پر کھلی وحشت و درندگی کا راج ہے۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ایبٹ آباد کے مطابق مکول نامی گاؤں کی ویلیج کونسل کے ناظم کی سربراہی میں مقامی افراد پر مشتمل نام نہاد جرگے نے عنبرین نامی لڑکی کو اس کی دوست صائمہ کی جانب سے پسند کی شادی کیے جانے پر عبرت کا نمونہ بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ گاؤں کی کوئی لڑکی آئندہ ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہ کرسکے۔ بااثر مجرموں نے عنبرین کی ماں سے جبراً اسے اپنی تحویل میں لے کر بے ہوشی کی دوا پلائی اور پھر اسی کے دوپٹے سے اس کا گلا گھونٹ کر جرم کے ثبوت مٹانے کے لئے لاش کو ایک گاڑی میں گیس سلنڈر کے ساتھ باندھ کر آگ لگادی تاکہ سلنڈر پھٹ جائے اور یہ درندگی حادثے کے پردے میں چھپ جائے۔ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر ظالمانہ کارروائیاں اگرچہ اب تک عام ہیں لیکن سنگ دلی جیسا بھیانک مظاہرہ مکول میں ہوا اس کی کوئی دوسری مثال ملنا مشکل ہے۔یہ صورت حال پوری پاکستانی قوم کے لئے انتہائی افسوسناک ہی نہیں حد درجہ شرمناک بھی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ نہ صرف اس واردات کے تمام ذمہ داروں کو جلد ازجلد عدالتوں میں پیش کرکے کیفر کردار کو پہنچایا جائے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کے اعادے کو ناممکن بنانے کے لئے تمام مطلوبہ اقدامات بھی بلاتاخیر عمل میں لائے جائیں۔پسند کی شادی یقیناًکوئی جرم نہیں بلکہ شادی میں لڑکیوں کی رضامندی اسلامی تعلیمات کی رو سے ناگزیر ہے۔ لہٰذاعلاقائی روایات کے نام پر والدین اور معاشرے کی جانب سے اس پر قدغنیں عائد کرنے کے بجائے شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پسند کو ملحوظ رکھا جانا قانوناً لازمی اوراس میں رکاوٹیں ڈالنے کوقابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہئے۔
تازہ ترین