• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصر کے منتخب صدر مرسی کے معزول کیے جانے سے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے ایک اہم گزارش۔ میرے گزشتہ کالم میں ایک طالبہ اور اُس کے خاندان کی زندگی کو کس طرح قرض اور سود نے جہنم بنا دیا کی کہانی پڑھ کر کتنے ہی قارئین تڑپ اُٹھے۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ بہت سے لوگ متاثرہ طالبہ اور اس کے خاندان کی مالی مدد کے لیے بے قرار تھے حالاں کہ میں نے اس سلسلے میں نہ کوئی اپیل کی اور نہ ہی ابھی تک متعلقہ خاتون معلمہ کی طرف سے مجھے ایسا کرنے کو کہا گیا۔ بغیر کسی جان پہچان کے محض انسانیت کے رشتے سے اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے بہت سے قارئین تو اتنے بے چین تھے کہ بغیر کسی تحقیق کے صرف متعلقہ افراد کا اکاونٹ نمبر مانگتے رہے۔ کچھ نے مجھ سے درخواست کی کہ میں انہیں اپنا بینک اکاونٹ بھیج دوں تاکہ اُن کا پیسہ متاثرہ خاندان تک پہنچ جائے۔ ایک صاحب نے لکھا کہ خدارا انہیں اس کارِ ثواب میں حصہ ڈالنے کے لیے سب سے پہلے موقع دیا جائے۔ ایک صاحب نے تو چار لاکھ روپے دینے کا عندیہ دے ڈالا۔ یہ سب پڑھ کر اور ان لوگوں کا جذبہ دیکھ کر مجھے دلی خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان تمام انسان دوست پاکستانیوں کو اُن کے اس عمل کا اجر دے اور اسے اُن کی آخرت میں کامیابی کا سبب بنائے۔ آمین۔ جیسا کہ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھاکہ خاتون معلمہ جنہوں نے مجھے متاثرہ طالبہ اور اس کے خاندان کی کہانی ای میل کی تھی، اُن کے جواب کا ابھی انتظار ہے۔ اگر مجھے اُن کا جواب ملتا ہے تو میری کوشش ہو گی کہ کسی ایسے شخص یا ادارے کو اُن کی تفصیلات سے آگاہ کروں جو کیس کے میرٹ اور سچائی کو پرکھ کر متعلقہ خاندان کی مدد کر سکے۔ ایک قاری نے مجھے لکھا کہ وہ میرے کالم یا میرا حوالہ دے کر متاثرہ خاندان کی امداد کے لیے پیسہ اکٹھا کر سکتے ہیں۔ میں اُس قاری کی نیت پر شک نہیں کرتا مگر میں نے انہیں اس سے منع کیا کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں۔نہ میں نے کسی کے لیے پیسہ مانگا اور نہ ہی میں کسی دوسرے کو اجازت دے سکتاہوں کہ وہ میرا نام استعمال کر کے لوگوں سے پیسہ بٹوریں۔ میں خود اس قسم کے مالی معاملات میں نہیں پڑتا اور یہ احتیاط اس لیے کیوں کہ میں نہیں چاہتا کسی شخص کا پیسہ دھوکہ یا فراڈ کی نذر ہو جائے اور اس میں میرا کوئی بھی کردار ہو، چاہے میری نیت صاف ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کسی نے اللہ کی رضا کے لیے کسی دوسرے دکھی انسان کی مدد کرنی ہے اور اس سلسلے میں میرا کوئی کردار ہو گا تو میری کوشش ہو گی کہ اُن کا پیسہ اصل حق دار کو ہی پہنچے۔ ابھی تک میں نے اس کیس میں ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ چونکہ یہاں دھوکہ بھی بہت ہے اور یہ دھوکہ کسی اخبار نویس اور کالم نگار کے ذریعے (اُس کے ملاپ یا اُسے بھی دھوکہ میں رکھ کر) ہو سکتا ہے اس لیے ایسے کاموں میں میں نہیں پڑنا چاہتا۔میرے گزشتہ کالم کامقصد سود ی نظام کے استحصال اور نا انصافی کو اجاگر کرنا تھا نہ کہ متاثرہ خاندان کی مدد کے لیے اپیل کرنا اور وہ بھی جب مجھے ایسا کرنے کے لیے نہ تو کہا گیا ہو اور نہ ہی میں نے اس سلسلے میں اپنی تحقیق مکمل کی ہو۔
مصر کے منتخب صدرمرسی کو آرمی چیف نے بندوق کے زور پر ہٹا دیا اور آمریت قائم کر دی۔ جمہوریت کو فوجی بوٹوں نے ساری دنیا کے سامنے روند ڈالا مگر نہ امریکا بولا نہ ہی یورپ و برطانیہ کے پیٹ میں کوئی مروڑ اُٹھا۔ نہ نام نہادجمہوریت کے علمبرداروں کی غیرت جاگی اور نہ ہی فوج اور آمریت کو گالیاں دی گئیں۔ صدر مرسی بے شک واضح اکثریت سے الیکشن جیت کر ابھی گزشتہ سال ہی منتخب ہوئے مگر اُن کا جرم اسلام پسند ہونا تھا۔ وہ اسی ”سزا“ کے مستحق تھے کیوں کہ وہ مصر میں اللہ کے نظام کو قائم کرنے کی بات کرتے تھے۔ یہی وہ ”خرابی“ تھی جس کی وجہ سے اخوان المسلمون کی اسلامی حکومت اسلام دشمنوں اور سیکولر جمہوریت پسندوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ یہی ”جرم“ ملا عمر کا تھا کہ لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ یہی ”غلطی“ الجزائر کی اسلامک سیلویشن فرنٹ کی تھی جس کی سزا اُسے یہ ملی کہ الیکشن جیتنے کے باوجود اسے حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جمہوریت اگر فحاشی پھیلائے، اسلامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ بنے، سودی نظام کو تقویت دے، پاکستان کی طرح نام تو اسلام کا استعمال ہو مگر ہر کام غیر اسلامی کیا جائے، امریکا کی غلامی تسلیم کر لے تو پھر اس جمہوریت کی تحسین میں گیت گائے جاتے ہیں اور اس کے تحفظ کے لیے امریکا و یورپ سب اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ سارا امریکا و یورپ کا سجایا گیا تماشا ہے۔ یہ سب اسلام کے خلاف جنگ کا سلسلہ ہے۔افغانستان، عراق، شام اور لیبیا کے بعد اب مصر کی تباہی کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایران بھی امریکا کے نشانے پر ہے جبکہ پاکستان میں بدامنی اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کی گزشتہ دس سال سے خوب کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ترکی میں بھی حالات خراب کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کر کے بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔ اُن کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ پہلے مسلم امّہ کو تقریباً پچاس قوموں (پاکستانی، ایرانی، عراقی، سعودی، ترک، افغانی وغیرہ)میں تقسیم کیا گیا اور اب ایک ایک منقسم قوم کو بھی تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے۔ مسلمان کشمیرو فلسطین جیسے مسائل کے حل کے لیے کئی عشروں سے رو رہے ہیں۔ اُن کا خون بہایا جا رہا ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔ مسلمانوں کو جس ذلت کا آج سامنا ہے اُس کا توڑ اتحاد ، اسلام اور خلافت کے نظام کے علاوہ کچھ نہیں۔ جمہوریت یا دوسرا ہر نعرہ ماسوائے دھوکہ و فراڈ کے کچھ نہیں اور مصر کی مثال نے یہی ثابت کیا۔ مگر مسلمانوں کے حکمرانوں کو یہ کون سمجھائے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے چکر میں ہے مگر امریکا ایک ایک کر کے سب کو تباہ کیے جا رہا ہے۔
تازہ ترین