• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ہے۔ شام کا دارالحکومت دمشق دنیا کا واحد قدیم ترین شہر ہے جو مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔ صدیوں تک ملک شام آسیری، بابلی، مصری اور ایرانی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ 333ق م میں اسکندر اعظم کے زیر تسلط آگیا تھا۔ 62 ق م میں دمشق رومی سلطنت کا صوبائی دارالحکومت بھی رہا۔ بعدازاں رومی سلطنت دوٹکڑے ہوئی تو یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ دمشق میں حضرت ایوبؑ، حضرت یحییٰؑ، حضرت ذوالکفلؑ جیسے جلیل القدر انبیائے کرام کی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہاں اسلام کی آمد 6ہجری میں ہوئی۔ حضور اکرم ﷺنے شاہ روم ’’ہرقل‘‘ کے نام دعوتِ اسلام کا نام مبارک بھیجا۔ حضورؐ کے وصال کے بعد خلافت صدیقی کے دوران مجاہدین اسلام نے رومیوں کو شکست دینے کے بعد ’’یرموک‘‘ میں انہیں محصور کرلیا۔ محاصرہ جاری تھا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں معرکہ یرموک نے رومیوں کی کمر توڑدی۔ ’’ہرقل‘‘ بھاگ کر روم چلا گیا۔ شام حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں سلطنت اسلامیہ کے 11 صوبوں میں سے ایک صوبہ تھا۔اموی خلفا کے زمانے میں دمشق دارالخلافہ بنادیا گیا۔ 1616ء سے 1918ء شام خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ 1920ء میں معاہدۂ سان ریمو کے تحت فرانس کے زیر کنٹرول آگیا۔ 1941ء میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانسیسی اور برطانوی افواج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ لبنان جوکہ اس کا ایک حصہ تھا الگ ملک بنادیا گیا۔ 1944ء میں مصر اور شام کو ملاکر ’’متحدہ عرب جمہوریہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور جمال عبدالناصر اس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1961ء میں فوج نے بغاوت کردی۔ 1966ء میں فوجی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کے جنوب میں جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 1974ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی شام نے بھرپور حصہ لیا۔ 1976ء میں شامی افواج لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگی کے بہانے داخل ہوگئی۔ 1980ء میں روس اور شام کے مابین تعاون اور دوستی کا 20 سالہ معاہدہ ہوا۔ 1987ء میں عیسائی ملیشیا اور شامی فوجی دستوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ 6 جون 1982ء کو اسرائیل نے لبنان میں وادی بقاع پر حملہ کرکے 5 دن تک شامی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ 11ون 1982ء کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوگیا۔ 1990ء میں کویت پر عراقی حملے کی شام نے مذمت کی اور اتحادیوں کے ساتھ اپنی افواج بھی خلیج بھیجیں۔ عرب اسرائیل امن کانفرنس کے انعقاد کے لئے شام نے 1991ء کی امریکی تجاویز قبول کرلیں۔ 1992ء میں شام نے یہودی آبادی پر سفری پابندیاں ختم کردیں۔ 16جنوری 1994ء میں شام نے جولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جو بے نتیجہ رہے۔ سعدحریری کے والد، لبنان کے مرحوم وزیراعظم اور بیروت کی تعمیر نو کرنے والے رفیق حریری کو 2005ء میں قتل کردیا گیا۔ حالات جیسے تیسے چلتے رہے، تاآنکہ 2011ء سے شروع ہوچکنے والی تحریک ’’عرب بہار‘‘ سے پورے مشرقِ وسطیٰ میںخزاں چھاچکی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ملک کے بعد دوسرے میں خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے۔ ایسے میں ان ملکوں میں مقیم پرامن عوام خصوصاً خواتین اور بچوں کا انتہائی برا حال ہے۔
اس وقت شام کے پھول بے دردی سے مسلے جارہے ہیں۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ شام میں ملک گیر جنگ بندی یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے،جبکہ روسی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ حلب میں سیز فائز کے لئے مذاکرات کئے جارہے ہیں۔ ادھر خلیج تعاون کونسل نے شام کے شہر حلب کے اسپتالوں اور شہری آبادی پر سرکاری فوج کی وحشیانہ بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا ہے، دوسری جانب شامی انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ حلب کے مشرقی علاقے میں28فضائی حملے کئے گئے ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب روس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ماسکو حلب پر فضائی حملے بند کرنے کے لئے اسد پر دباؤ ڈالے تاہم روس اور شام کا کہنا ہے کہ یہ حملے شدت پسندوں کے خلاف کئے جارہے ہیں۔عرب ویب سائٹس اور میڈیا کے مطابق وحشیانہ بمباری سے اب تک سینکڑوںشامی شہید ہوچکے ہیں۔درجنوں مظلوم خواتین اور معصوم بچے بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر جس نے بھی شام کے ان پھول سے بچوں اور بچیوں کی دل دہلادینے والی تصویریں دیکھیں وہ اس بے بسی پر آنسو بہائے بغیر نہ رہ سکا۔ اس وقت میرے سامنے شام کے کئی زخمی بچوں کی تصاویر رکھی ہیں۔ یہ تصویر ایک معصوم سی بچی کی ہے جس کی عمر بمشکل دس یابارہ برس ہوگی۔ اس بچی کے سر، ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کی دونوں ٹانگیں شدید زخمی ہیں اور یہ ایک تباہ حال گھر کے سامنے اینٹوں، بجری اور ریت کے ڈھیر پر پڑی ہے۔ بچی کی دونوں آنکھیں کھلی ہیں اور اس کا لباس تار تار ہے۔ بچی کی یہ تصویر زبانِ حال سے دنیا کے حکمرانوں کو بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ایک تصویر میں دو سال کے گلاب سے بچے کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔ اس کے والدین اسپتال لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن ان پر میزائل داغا گیا جس سےزخمی بچہ، ماں باپ سمیت شہید ہوجاتا ہے۔ یہ لاش عالمی ضمیروں سے سوال کناں ہے: ’’میرا جرم کیا ہے؟۔ شامی بچوں کی لاشیں دنیا کے 245 آزاد ممالک سے انسانیت کے ناتے پوچھ رہی ہیں ہمیں کیوں مارا گیا؟ ایک کتے اور بلے کے مارے جانے پر احتجاج کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں کیوںمہر بہ لب ہیں؟
ایک تصویر میں دس سالہ بچے کی میت کو دفنانے کے لئے لے جایا جارہا ہے۔ اس کے دوستوں نے میت کاندھوں پر اُٹھارکھی ہے۔ اس کے کلاس فیلو احتجاج کررہے ہیں۔ ایک پلے کارڈ پر درج ہے: ’’اقوامِ متحدہ نے دونوں آنکھیں کیوں بند کی ہوئی ہیں؟‘‘ ایک تصویر میں ایک بوڑھی خاتون، اپنی گود میں دو زخمی بچیوں کو لئے پریشان وحیران کھڑی ہے۔ پس منظر میں بمباری سے وسیع علاقے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ وہ بوڑھی خاتون زبانِ حال سے کہہ رہی ہے: ’’منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ایک تصویر اسپتال کی ہےجوبمباری سےتباہ ہوگیا اور نتیجے میں بیمار بچے بھی شہید ہوگئے۔ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والو! بتائو تو سہی کہیں ایسا بھی ہوا ہے کہ بیمار اور معذوروں پر بمباری کرکے انہیں شہید کیا گیا ہے؟
کس کس تصویر کا رونا روئیں؟ سینکڑوں ہزاروں شامی بچے موت کے دہانےپر کھڑے ہیں۔ اس کا اعتراف خود اقوام متحدہ نے بھی کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارےیونیسف نے اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ ہولناک انکشاف کیا ہے کہ شام میں جاری تنازع کی وجہ سے وہاں کے 80 لاکھ بچوں کو بلاواسطہ یا بالواسطہ خطرات لاحق ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2011ء سے اب تک صدر بشارالاسد کی حکومت کے بیرل بم حملوں اور گولہ باری سے 11 ہزار سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ شامی بچوں کو تشدد، قید و بند، اغوا اور جنگ میں جبری طور پر استعمال کئے جانے سمیت پونے 3 ہزار قسم کے مظالم کا سامنا ہے۔ 20 لاکھ بچے ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جہاں لڑائی کی وجہ سے امداد کی فراہمی بہت مشکل ہے۔ پورے ملک میں بچوں کے لئے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ لاکھوں بچے جانی خطرات سے دوچار ہیں تو ان کی تعلیم اور صحت وغیرہ کے معاملات کا کیا ذکر کرنا؟ اگر بے گناہ بچوں کی شہادتوں کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ان کی تعداد اب لاکھوں تک پہنچ جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ ایک طرف تو یہ صورت حال ہے، جبکہ دوسری طرف ملک کے تاریخی اور مقدس مقامات کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔
تازہ ترین