• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تو یہ سوچ کر سخت پریشان ہو جاتا ہوں کہ آموں کا موسم ختم ہونے کے بعد میرا کیا بنے گا؟ ہیروئن بھی کوئی نشہ ہے، جان لیوا، خود تباہ، ساری فیملی تباہ۔۔۔ اور آم؟ اللّٰہ اکبر، قوت بخش، راحت افزا، جنت کے پھلوں کا سردار، کھانا شروع کریں تو کھاتے چلے جائیں، یہ آم جو ہیں، آج کل کھائے جاتے ہیں، پہلے چُوسے جاتے تھے۔ میں نے ایک غیرملکی کے فرضی سفرنامہ پاکستان میں لکھا ہے کہ ’’یہاں ایک پھل پایا جاتا ہے جسے آم کہتے ہیں، پہلے اسے دونوں جانب سے ہلکا ہلکا دبایا جاتا ہے، اس عمل کو آم ’’پولا‘‘ کرنے کا نام دیا گیا ہے، جب یہ ’’پولا‘‘ ہو جاتا ہے تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر چوسا جاتا ہے، کئی لوگ آم ’’پولا‘‘ کر کے کسی دوسرے کو چوسنے کے لئے دے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس کے لئے ترقی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص کے گرد ہر وقت خواتین کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، میں نے ایک دوست سے پوچھا ’’یہ شخص کیا کام کرتا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا کچھ نہیں، صرف آم ’’پولا‘‘ کرتا ہے اور پھر چوسنے کے لئے دوسروں کو دے دیتا ہے!‘‘ بہرحال جن دنوں آم کھانے کی بجائے چُوسا جاتا تھا، ان دنوں آم پارٹیاں بھی ہوتی تھیں، ایک بہت بڑے ٹب میں برف اور ڈھیروں آم ڈال دیئے جاتے تھے اور یار لوگ دھوتی اور بنیان پہن کر ٹب کے گرد ہالہ سا بنا کر بیٹھ جاتے تھے اور کیا مزے لے لے کر آم چُوسا کرتے تھے۔ میرے ایک بہنوئی انیس بھائی جان آموں کے رسیا تھے، وہ اکثر ڈھیروں آم لاتے، بچوں کو کہتے کہ سب کپڑے اتار کر صرف جانگیے میں اس کے گرد بیٹھ جائیں، یہ اہتمام کپڑے خراب ہونے سے بچنے کے لئے کیا جاتا تھا، ماشاء اللّٰہ ان کے نو بیٹے تھے، جن میں سے ایک بہت پیارا مبین پیرزادہ بھی تھا، جو گزشتہ دنوں سارے خاندان کو روتا چھوڑ کر کورونا کے ہاتھوں اللّٰہ کو پیارا ہو گیا۔ ایک دفعہ انیس بھائی جان اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنے ایک عزیز کے ہاں مہمان تھے، کھانے کے بعد میزبان نے بھائی جان سے کہا اب آپ کے پسندیدہ آم کی باری ہے۔ آم کا لفظ سنتے ہی ان بچوں نے ایک ایک کر کے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیئے۔ سب سے چھوٹا تو جانگیہ بھی اتارنے کو تھا، مگر اسے روک دیا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر میزبان ہنستے ہنستے دہرا ہو گیا۔

آپ دوست تو جانتے ہیں کہ مرزا غالب، اقبال اور عطاء الحق قاسمی میں سے غالب اور اقبال کو آم کس قدر پسند تھے اور عطاء الحق قاسمی کو کتنے پسند ہیں۔ ایک دفعہ اقبال کو ڈاکٹروں نے آم کھانے سے منع کر دیا، مگر اقبال نے کہا جناب میں آموں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ رہنا چاہتا ہوں۔ اس پر انہیں دن میں صرف ایک آم کھانے کی اجازت ملی۔ چنانچہ اقبال نے صرف ایک آم پر گزارا کرنا شروع کر دیا، مگر یہ ایک آم ڈیڑھ دو کلو کا ہوتا تھا اور ہاں جس طرح ہمارے ہاں بے شمار سیاسی پارٹیاں ہیں جن میں سے کچھ کیا بیشتر ایسی ہیں کہ جن کے پیروکاروں کی تعداد ان کے لیڈر سمیت یہی کوئی پندرہ بیس ہوتی ہے، یہ وہ پارٹیاں ہیں، جو الیکشن کے دنوں میں ’’سیل‘‘ لگا دیتی ہیں ، جو زیادہ مول یا زیادہ ’’تڑی‘‘ لگائے، اس کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ اسی طرح آموں کی بھی بہت قسمیں ہیں، میرے نزدیک آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور ان میں سے جو ’’انور راٹول‘‘ ہے، وہ پھلوں کا شہنشاہ ہے۔ کاش مقدس کتابوں میں اس کا ذکر ہوتا اور یوں کلونجی کی طرح اسے مذہبی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی۔ اب آپ کو ایک راز کی بات بتائوں، مجھے عموماً آم خریدنا نہیں پڑتے، میرے دوست آم کے حوالے سے میری ہذیانی کیفیت سے آگاہ ہیں، چنانچہ آم کا موسم شروع ہوتے ہی آموں کی پیٹیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں جن میں انور راٹول، چونسہ، سندھڑی، دسہری اور لنگڑا وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ آپ لنگڑے کا نام سن کر اس کا مرتبہ کم کرنے کی کوشش نہ کریں، ابھی یہ لنگڑا ہے مگر آموں کی دوڑ میں حصہ بہرحال لیتا ہے۔ گزشتہ روز میں پھلوں کی دکان سے آلو بخارا، لیچی اور سیب خریدنے کے بعد جب دکاندار کو ادائیگی کر رہا تھا، اس نے کہا ’’جناب آپ آم نہیں لیں گے؟‘‘ میں نے کہا ’’یار سوری، ابھی آموں کے دو کریٹ میری کار کی ڈگی میں پڑے ہیں‘‘۔ یہ سن کر اس نے روہانسی آواز میں کہا ’’جناب ان گفٹ دینے والوں نے ہمارا کاروبار تباہ کر دیا ہے!‘‘ دکاندار کی آہ و بکا اپنی جگہ مگر میں آموں کے موسم کو پُرجوش طریقے سے خوش ’’آم‘‘ دید کہتا ہوں!

تازہ ترین