کالے اونچے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ ایک ماں اور اس کی گود میں ہمکتا ننّھا بچّہ جانے والے کو یک ٹک دیکھ رہے تھے۔ ماں پریشان بھی تھی اور فکر مند بھی کہ ابر، نہ سایہ، گھر، نہ سازو سامان اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی آسرا۔ تا حدِ نظر بنجر، ویران بے آب و گیاہ صحرا جو فی الوقت اُن کی منزل تھی۔ ہجرت کی طویل، کٹھن مسافت نے پاؤں تھکا دیے تھے، لیکن رفیقِ سفر کی موجودگی باعثِ اطمینان تھی، مگر اب وہ بھی جانے کا عندیہ دے رہا تھا۔ ’’آپ ہمیں کس کے سہارے چھوڑ کرجارہے ہیں، ہم ماں ،بیٹا کیسے رہیں گے؟‘‘ جواب میں خاموشی اورجُھکا ہوا سَر تھا۔’’کیا یہ ربّ کا حکم ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘میں جواب پاتے ہی زوجہ کا بھی سَر حکمِ ربّی کی تکریم میں جُھک گیا اور کہا’’جائیے، ربّ کے حکم کی اطاعت کیجیے۔ یقینا ربّ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ وہ ہمارے لیے ضرور کوئی انتظام کردے گا۔‘‘ یہ ایمان اور یقین کی انتہا تھی۔ حضرت ابراہیم ؑجا رہے تھے، دِل بیوی اور بچّے میں اٹک رہا تھا، لیکن ربّ کی اطاعت میں مصروف وجود، دِل کی اکساہٹوں سے بے نیاز تھا۔حضرت ابراہیمؑ چلے گئے۔ دھوپ نے شدّت پکڑی تو کُھلے آسمان تلے بچّہ پیاس سے بلکنے لگا۔بی بی ہاجرہ ؑپانی کی تلاش میں کوہِ صفا سے کوہِ مروہ کے درمیان سعی کر رہی تھیں کہ ربّ نے بچّے کی ایڑیوں تلے پانی کا چشمہ بہا دیا۔
ربّ سے محبّت کی یہ سچّی کہانی حضرت ابراہیم ؑکے پورے گھرانے کی ہے۔ باپ، ماں اور بیٹے نے ہر قدم پر اللہ کی اطاعت کے آگے سَر جُھکایا اور اپنی ذات کو سراپا تسلیم و رضا بنادیا۔ حضرت ابراہیمؑ برسوں بعد واپس آئے، تو ماں کی تربیت میں بیٹا اور بھی نکھر چُکا تھا۔ پھر حضرت ابرہیمؑ نے خواب دیکھا، تو بیٹا خوشی خوشی اس کی تعبیر بننے کے لیے آمادہ ہوگیا۔ چُھری حضرت اسماعیلؑ کی گردن ہی پرنہیں، باپ کے دِل پر بھی چلنے والی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا اورندا آئی کہ ’’تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کے گھرانے کی بے مثال اور بلا چون و چرا اطاعت، حُبِّ الہیٰ کی معراج بن گئی اور رہتی دُنیا تک سارے جہان کے لیے نشانِ منزل بنادی گئی۔ بیت اللہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے مل کر بنایا اور سارے انسانوں کو اس گھر کے حج کے لیے پکارا۔ حج اور قربانی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی یادگاریں ہیں، تو حج میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے سات چکر بی بی ہاجرہؑ کی بے قرار ممتا کی نشانی۔
عید الاضحی کا تہوار حج اور قربانی سے منسوب ہے۔ یہ یادگار ہے، ایک باپ کے سکھائے سبق کی، ایک ماں کی تربیت اور ایک پورے گھرانے کی ایک ہی مقصد، ایک ہی محور اور مرکزِ زندگی پر یک سوئی کے ساتھ سرِ تسلیم خم کرنے کی۔ اور وہ مقصد، محور اور مرکز صرف ربّ کی رضا ہے۔صاحبِ حیثیت مسلمان حج اورقربانی کا فریضہ ادا کرتے ہوئےتسلیم و رضا کے اس عظیم الشان واقعے کو بھی یاد رکھیں۔ اپنے بچّوں کے ذہن میں اس کے نقش ثبت کریں۔
اپنے گھر اور گھرانے کو مثالی مسلم گھرانہ بنائیں۔ آپس میں محبّت رکھیں، ربّ کی رضا کے حصول میں ایک دوسرے کی معاونت کریں۔ درست سمت میں اپنی اولاد کی تربیت کریں، بچّوں کے دِل میں باپ کی محبّت کا عکس بھی گہرا کریں اور رب کی اطاعت کا سبق بھی سکھائیں کہ اسماعیل کو آدابِ فرزندی اُن کی ماں ہی نے سکھائے تھے، تو گھر سے بہتر یہ سبق کہیں سے نہیں مل سکتا ۔