• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت نے 503/ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے جرأت مندانہ اقدامات اٹھاتے ہوئے 19 آئی پی پیز کو 28 جون رات گئے 260/ارب روپے ادا کئے جس کے عوض بجلی پیدا کرنے والے یہ آئی پی پیز رمضان سے پہلے 1500 سے1700 میگاواٹ اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو سپلائی کریں گی جس سے ملک میں تقریباً 40% لوڈشیڈنگ میں کمی متوقع ہے۔ اسکے علاوہ حکومت نے تیل اور گیس سپلائی کرنیوالی کمپنیوں PSO، PPL، OGDC کو ان کے واجبات کی مد میں 66/ارب روپے کیش اور177/ارب روپے کے 10.05% منافع کے7 سالہ حکومتی بانڈز جولائی تک جاری کرنیکا وعدہ کیا ہے جس سے تیل اور گیس سپلائی کرنیوالی کمپنیاں جو ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گئی تھیں اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو مطلوبہ مقدار میں تیل اور گیس سپلائی کرنیکی پوزیشن میں نہیں تھیں، اب مالی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے انہیں مطلوبہ تیل اور گیس فراہم کرسکیں گی جس سے ملک میں بجلی پیدا کرنیکی استطاعت میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں گرمی میں اضافے کیساتھ بجلی کی طلب 16,600 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے لیکن ہمارے بجلی گھر خاطر خواہ مینٹی نینس نہ ہونے کے باعث بجلی کی انکی زیادہ سے زیادہ پیداوار 12,150 میگاواٹ ہے جسکی وجہ سے بجلی کی موجودہ طلب میں 4450 میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے۔
اس سلسلے میں حال ہی میں، میں نے پاکستان اسٹیٹ آئل (PSO) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کی صدارت میں PSO کے واپڈا اور دوسری بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں پر واجب الادا رقوم کی ادائیگی کی حکومتی تجویز کی منظوری دی جس میں حکومت نے PSO کو 33/ارب روپے کیش اور 55/ارب روپے حکومتی بانڈز کی پیشکش کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ PSO نے کیپکو اور دیگر بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو اضافی فرنس آئل فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ میں نے ٹی وی پروگرامز میں ملک میں انرجی کے بحران کے حل کیلئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ 503/ارب روپے کے خطیر گردشی قرضے جو 5/ارب ڈالر بنتے ہیں، ادا کرنے کے بعد اگر پاور سیکٹر میں ریفارمز اور ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے تو یہ گردشی قرضے دوبارہ پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی کئی بار حکومتوں نے ان گردشی قرضوں کی جزوی ادائیگی کی تھی لیکن آج تاریخ کے سب سے زیادہ گردشی قرضوں نے ہمارے توانائی کے نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ آیئے اس بات کا جائزہ لیں کہ گردشی قرضوں کے ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
گردشی قرضوں پر ٹی وی کے ایک پروگرام پر میری ملاقات انرجی میں ڈاکٹریٹ کرنیوالے پروفیسر نسیم خان سے ہوئی جنہوں نے مجھے بتایا کہ 2006ء تک ہمارے گردشی قرضے اپنی حد میں تھے لیکن جب آئی پی پیز کی مہنگی بجلی (14روپے سے17 روپے فی یونٹ) کی پیداوار ملک کی مجموعی بجلی کی پیداوار سے 30% سے تجاوز کرگئی تو گردشی قرضے بڑھنے شروع ہوگئے ۔2012ء میں آئی پی پیز کی مہنگی بجلی کی پیداوار ملکی بجلی کی مجموعی پیداوار کا 40% تقریباً 8000 میگاواٹ سے تجاوز کرگئی جس سے پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی اوسط لاگت میں نہایت اضافہ ہوا۔ بجلی کے نرخوں کو نہ بڑھانے کے عوض حکومت نے 2008ء سے 2013ء تک واپڈا کو 1.4کھرب روپے کی سبسڈی دی ہے جو ہمارا قومی خزانہ کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا۔ موجودہ بجلی کی فی یونٹ لاگت 14.70روپے ہے جبکہ حکومت صارفین سے 8.81روپے وصول کررہی ہے اور اس طرح حکومت 5.9 روپے سبسڈی دے رہی ہے جو مجموعی طور پر 250 / ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ نومنتخب حکومت نے پہلے مرحلے میں 2.5روپے فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 300 یونٹ تک استعمال کرنیوالے صارفین پر نہیں ہوگا لیکن آئی ایم ایف سے لئے گئے 5.3 بلین ڈالر کے نئے قرضے کی شرائط میں بجلی کے نرخوں میں دی جانے والی پوری حکومتی سبسڈی کو 3 سالوں میں بتدریج ختم کرنا شامل ہے۔
گردشی قرضوں کی دیگر وجوہات میں بجلی کی چوری، کرپشن، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں بدانتظامی، فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنا، پن بجلی اور متبادل توانائی سے کم بجلی کا حصول، ناقص پیداواری صلاحیت کے حامل بجلی گھر، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن ناقابل برداشت نقصانات،واپڈا کے بلوں کی عدم وصولی کے باعث تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بلوں کی عدم ادائیگی سے سرکلر ڈیٹ میں مسلسل اضافے کا سبب ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گردشی قرضوں میں اضافے کی ایک اہم وجہ آئی پی پیز کی فرنس آئل سے پیدا کی گئی مہنگی تھرمل بجلی سپلائی کرنا ہے لہٰذا ملک میں بجلی کی اوسطاً لاگت کو کم رکھنے کیلئے ہمیں آئی پی پیز سے 30% یعنی 6000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی نہیں لینا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی بجلی کی اوسط لاگت کم کرنے کیلئے سستی اور صاف بجلی پیدا کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ ہائیڈرو پروجیکٹ کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہمیں صارفین کو بجلی کے استعمال میں کفایت شعاری کی ترغیب دینا ہوگی تاکہ بجلی کے بے جا ضیاع کو روکا جاسکے۔ سی این جی کے استعمال کو کم سے کم کرکے اس قدرتی گیس کو صنعتی پہیئے کو چلانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ گیزرز اور ٹیوب ویلز کو سولر انرجی یعنی شمسی توانائی پر منتقل کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ونڈ انرجی اور سول نیوکلیئر انرجی کی استطاعت کو بڑھانا ہوگاجو صاف اور سستی بجلی کا ذریعہ ہے۔ سستی بجلی کی فراہمی کیلئے زیادہ سے زیادہ قومی پاور ہاؤسز کو جلد از جلد کوئلے پر منتقل کیا جائے جس کیلئے 2 بلین ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے 5000 میگاواٹ سستی بجلی (8 روپے فی یونٹ) پیدا کر نے کی تجویز ہے جبکہ بجلی کی موجودہ لاگت 14 روپے فی یونٹ ہے۔ ملک میں فرنس آئل سے تقریباً 41%، ہائیڈرو اور نیوکلیئر سے 31%، قدرتی گیس سے 27% اور کوئلے سے 1% بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس طرح کوئلے اور دیگر متبادل ذرائع سے سستی بجلی کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی اوسط پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ اس کے برعکس انڈیا میں کوئلے سے 69%، ہائیڈرو اور نیوکلیئر سے 18%، گیس سے 12% اور فرنس آئل سے صرف 1% بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پولینڈ، جرمنی اور ایشیاء کی سب سے بڑی معیشت چین اپنی ضروریات کی 60% سے70% بجلی کی ضروریات کوئلے سے پوری کرتے ہیں جبکہ پاکستان جسے اللہ تعالیٰ نے 175بلین ٹن کے بلیک گولڈ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال کیا ہے بدقسمتی سے یہاں کوئلے سے بجلی کا حصول نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے وقت 4 آئی پی پیز نے 18 مہینوں میں اپنے تھرمل بجلی گھروں کو کوئلے پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے ان کی بجلی کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ سرکلر ڈیٹ کے مستقل خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ بجلی پیدا اور سپلائی کرنیوالے قومی اداروں کی تنظیم نو کرکے کارپوریٹ سیکٹر سے پروفیشنلز سربراہان لائے جائیں اور ان اداروں سے حکومتی مداخلت کو ختم کیا جائے۔ ان اداروں کے سربراہان کو کرپشن، بجلی کی چوری کو ختم کرنے اور بجلی کے بلوں کی وصولی کیلئے سخت اہداف دیئے جائیں تاکہ وہ اپنے اداروں کی مالی حالت بہتر بناسکیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں بجلی کی چوری کی روک تھام کیلئے سخت قوانین اور اقدامات اٹھانے ہوں گے نہیں تو گردشی قرضوں کا یہ ناسور دوبارہ جڑیں پکڑلے گا۔ قومی بجٹ میں حکومت نے نئے ٹیکسز لگاکر 200/ارب روپے اضافی ریونیو کی وصولی کا ہدف رکھا ہے۔
حکومت کی نئی انرجی پالیسی آخری مراحل میں ہے۔ میری وزیراعظم سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا اہم تجاویز جو ریسرچ کے بعد مرتب کی گئی ہیں، کو نئی انرجی پالیسی تشکیل دیتے وقت مدنظر رکھا جائے ۔میری تجویز ہے کہ وزارت پانی و بجلی اور وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کو بہتر کوآرڈی نیشن کیلئے ضم کیا جائے لیکن دونوں کے علیحدہ ڈویژنز اور سیکریٹریز ہوں ۔ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتی ترقی جمود کا شکار ہے۔ ملازمتوں کے مواقع محدود ہوکر رہ گئے ہیں اورملکی ایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہورہا جس سے ہماری معاشی ترقی خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں غیر اطمینان بخش ہے۔ انرجی کے بحران کو ختم کرکے ہم 2% اضافی جی ڈی پی حاصل کرسکتے ہیں۔ معاشی ترقی کا دوسرا اہم ہدف امن و امان کی صورتحال کو قومی ایجنڈے کے تحت بہتر بنانا ہے۔ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کی نومنتخب حکومت سے بہت توقعات وابستہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ جس طرح حکومت نے توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے اسے اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے، ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بھی اپنی اہم ترجیحات میں شامل کرے تاکہ ملکی معیشت بحال ہوسکے۔
تازہ ترین