اداکاری کی ایک صدی ختم ہوئی۔ دلیپ کمار (یوسف خان )بھی چلے گئے۔ یوسف خان نے جب اداکاری شروع کی تھی تو انڈین فلم انڈسٹری پر فلم بینی کی ہندو مارکیٹ کا دبائو اتنا زیادہ تھاکہ انہیں اپنا نام یوسف خان کی بجائے دلیپ کمار رکھنا پڑا مگر بعد میں اسی ری ایکشن میں شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان جیسے بڑے نام سامنے آئے۔ مجموعی طور پر ہم ہندوئوں کو تنگ نظر سمجھتے ہیں مگر ہمارے کئی مسلمان بھائی بھی تنگ نظری میں کسی سے کم نہیں۔میں جب بھی ایسی کوئی بات سوچتا ہوں مجھے اپنا بہت قریبی دوست یادآجاتا ہے۔ وہ ایک اسلامی جماعت کا اسٹوڈنٹ لیڈر تھا ،ایک دن میرے پاس آیااور کہنے لگا، ’’ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ ہم گلاب دیوی اسپتال کا نام ’’رابعہ بصری اسپتال‘‘ اور گنگا رام اسپتال کا نام ’’ابن سینا اسپتال‘‘ رکھنے کی تحریک شروع کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں کوئی جھوٹ موٹ کا ایسا مواد فراہم کردو جس سے ثابت ہوکہ گلاب دیوی اور گنگارام دونوں مسلمانوں کےدشمن تھے‘‘۔ میں ان دنوں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں رہ رہا تھا اور وہاں ان دنوں طالب علم جماعتوں میں خوفناک جنگ جاری تھی، ایک دوطالب علم قتل بھی ہو چکے تھے۔ میں نے ہنس کر کہا ’’میں تاریخ کیسے بدل سکتا ہوں، ماضی تبدیل نہیں ہوسکتا‘‘۔ نوجوان لیڈر نےبڑے یقین اور ولولے سے کہا ’’نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘۔ میں پھر ہنس پڑا اور کہا ’’تقدیر کا تعلق مستقبل سے ہے وہ بدل سکتی ہے مگر ماضی نہیں بدلا کرتا‘‘۔ اس نے تھوڑے سے ہتھیار ڈالے اور کہا ’’کوئی راستہ سوچو‘‘ میں نے کہا ’’گنگارام کے بارے میں تو یہ طے ہے کہ وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا مگر فسادِ خلقِ خدا کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔ پھر میں نے منٹو کی یہ تحریر کتاب ’سیاہ حاشیے‘ سے پڑھی۔ ہجوم نے رُخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لئے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہوگیا، چنانچہ مرہم پٹی کے لئے اسے سر گنگا رام اسپتال میں بھیج دیا گیا‘‘۔ بہرحال وہ نوجوان میرے پاس سے بہت مایوس واپس گیااور آج تک گلہ کرتا ہے کہ تم نے ہمیں نیکی کے کام سے روکا تھا۔
مجھے سب سے زیادہ خوشی چند دن پہلے ہوئی کہ مذہبی امور کے وزیرپیر نور الحق قادری بھی میری سچائیاں پھیلا نے کاکام شروع کر چکے ہیں۔ گنگا رام کی سمادھی (ہندو مذہب میں راکھ کی قبر) جو مجاہدینِ لاہور نے تباہ کر دی تھی اسے قبضہ مافیا سے چھڑوا کر از سر نو آرائش و تزئین اور بحالی کا کام کرایا اوراس کا افتتاح کیا۔جب یہاں یہ سمادھی بنائی گئی تھی تو اس کے چاروں طرف بے گھر خواتین کا آشرم (رفاہی قیام گاہ) تھا۔اب وہاں ایک مسجد ہے اور باقی مکانوں میں گھروں والی خواتین رہتی ہیں۔ پیر نور الحق قادری نے وہاں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسانیت کی تعظیم، بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ اور غیرمسلموں کو آئین میں دیے گئے حقوق کی ہر ممکنہ فراہمی حکومتِ پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے وژن کی روشنی میں ملک میں مذہبی سیاحت کے فروغ کےحوالے سے معاملات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندو اور سکھ مذہب کی قدیم عبادت گاہوں کو از سر نو بحال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت اقلیت نواز اور اقلیت دوست ہے کیونکہ ملکی ترقی، خوشحالی اور اس کی تعمیر میں اقلیتوں کا بھی اتنا ہی کردار ہے جتنا کہ مسلم شہریوں کا۔
بھارت میں بابری مسجد سانحہ کے تناظر میں پاکستان میں عوام نے احتجاج کیا تو اس دوران سمادھی سرگنگا رام کو بھی نقصان پہنچا۔ سرگنگا رام ایک انسان دوست شخصیت تھے جنہوں نے ذات پات، مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کی۔ لاہور میں گنگا رام اسپتال، ہیلے کالج آف کامرس سمیت دیگر متعدد تعلیمی اداروں، شفاخانوں کا قیام انہی کی مرہون منت ہے۔ متروک وقف املاک بورڈ حکام نے سرگنگا رام کی سمادھی کی ازسر نو تزئین و آرائش اور بحالی کا کام کرکے قابلِ تحسین کام کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مملکت خداداد کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد ملک میں بسنے والے غیرمسلموں کے معاملات کو خصوصی طور پر فوکس کیا۔ ملک بھر میں موجود مندروں اور گورودواروں کی بہتر دیکھ بھال اور متروک وقف املاک بورڈ کے معاملات کو احسن انداز میں چلانے کیلئے ماضی کی طرح ادارےکے سربراہ کے طور پر کسی سیاسی شخصیت کا انتخاب کرنے کی بجائے خالصتاً میرٹ کی بنیادپر چیئرمین کے طور پر ڈاکٹر عامر احمد کا انتخاب کیا جس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں۔ آج متروک وقف املاک بورڈ کی مختلف مالیاتی اداروں میں محفوظ سرمایہ کاری کا حجم ساڑھے 5ارب روپے سے زائد ہو چکا ہے تو وہیں پر گزشتہ 3برسوں کے دوران ادارہ کے فیلڈ اسٹاف کی کارکردگی میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوا ہےاور اِس عرصہ کے دوران مالیاتی اہداف بخوبی حاصل کئے گئے ہیں۔کرتار پور راہداری کھولنے کے بعد شیوالہ تیجا مندر سیا لکوٹ کو ازسرنو بحال کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں کٹاس راج کا انتظام و انصرام حال ہی میں پنجاب حکومت سے لیکر متروک وقف املاک کو سونپا گیا ہے جس کے بعد کٹاس راج میں شیو مندر، تاریخی امرکنڈ حویلی کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹے مندروں کی ازسرنو بحالی کا کام شروع ہو چکا ہے۔ پنجاب، خیبرپختون خوا، سندھ، بلوچستان میں موجود فنکشنل مندروں اور گورودواروں کی دیکھ بھال بہتر انداز میں کی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں گوردوارہ چواصاحب سمیت دیگر مقامات کو ازسرنو بحال کر دیاجائے گا۔