گاؤں کے زمانے میں ہم اکثر یہ سوچا کرتے تھے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ’’اصول‘‘ ادھر ہی ہے، گر شہر میں چلے گئے تو لاٹھی والے کی بھینس کے بجائے بھینس والے ہی کی بھینس ہوگی۔ کالج کی تمنا ساکنانِ شہر کے قریب لائی تو یہاں بھی ہر محلے میں لاٹھیاں بےنیام و بےلگام تھیں اور بھینسیں نیاموں میں یا لگاموں میں۔ یعنی محکوم کی محکوم۔ شہر میں اشرافیہ کا جواب ویسا ہی سفید تھا جیسے گاؤں کے سچے اور جھوٹے چوہدری کا۔ تعلق تو اپنا بھی لاٹھی والوں ہی سے تھا مگر اپنے دل کا لاٹھی سے تعلق ناپائیدار ہی نکلا۔
ہمارا سارا بچپن، سارا اسکول اور آدھا کالج آمریت کی گلیوں اور سنسر شدہ اخبارات کی سرخیاں پڑھ پڑھ ہی کر گزرا۔ اوپر اوپر سے ہر سطح ضیائی مگر نیچے ظلمت ہی ظلمت۔ یہ چراغ تلے اندھیرا والا سبق ہم نے ضیائی دور ہی میں پڑھ لیا تھا۔ گریجویشن اور یونیورسٹی دور میں جمہوریت تو لوٹ آئی مگر آمرانہ سائے ہر جگہ ہمسائے ہی رہے۔ خدا خدا کرکے اگر 1988میں جمہوریت آئی بھی تو آمریت کے فلسفہ نے کبھی اسلام، کبھی عورت کی حکمرانی اور کبھی ’’دوستوں‘‘ کی دوستی نے ایسے راگ الاپے اور منصوبہ بندیاں کیں کہ لاٹھیاں بڑھتیں اور بھینسیں کم ہوتی دکھائی دیں۔ کیا عالم تھا، اب ایک ایک بھینس اور بارہ بارہ لاٹھیاں ہو گئیں۔
لاٹھی ہو کہ لٹھ یہ سب سے پہلے آزادی رائے کے سر پر پڑتی ہے۔ لاٹھی اگر کسی ذمہ دار ہاتھ میں ہو تو حفاظت اور انصاف کی علامت ہے، قانون سازی اور حیا کی پاسداری کی بھی علامت ہے، اور علامت ہے حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف کے مل بیٹھ کر قومی و بین الاقوامی امور نمٹانے کی نہ کہ راتوں رات آرڈیننسوں سے فیصلے صادر کرنے کی۔ اگر یہی لاٹھی رہبر کے بجائے راہزن کے ہاتھ میں آ جائے تو سمجھ لیجئے معاملہ ان گائیڈڈ میزائل سا ہوگیا۔ جناب ٹرمپ کو بڑا شوق تھا آزادی رائے پر قدغن لگانے اور رپورٹرز کا ڈیٹا اور ذرائع چیک کرنے کا۔ یہ سب اس نے خوب جی بھر کے کیا مگر اقتدار نہ بچا سکا، وہ اقتدار کہ جو اس کی جھولی میں ری پبلکن کی امانت تھا۔ امریکہ کو ہم دن رات کوستے ہیں مگر اپنی کمزوریوں کو نہیں۔ وہ تو اپنی کمزوریوں اور رازوں کو ایک خاص مدت کے بعد افشا کر کے بحث کرا لیتے ہیں۔ سو تشخیص کے بعد ایسا دوا دارو کرتے ہیں کمزوری نہ رہے۔ مضبوط ہونے کا طریقہ یہی ہے کہ زخم ناسور نہ ہونے پائے!.... اجی، میں بھی دن رات رگیدتا ہوں کہ امریکہ نے ایران و عراق، فلسطین، افغانستان اور کشمیر کیلئے ہمیشہ برا کیا۔ لیکن میں اس پر ہمیشہ پردہ ڈالتا ہوں کہ ہم نے خود اپنے لئے کیا کیا؟ میں ہی نہیں ، میرا رائٹر ہی نہیں ، میرا مربی بھی مرضی ہی کا سچ بولتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ مصلحتاً جھوٹ بولنا بھی سچ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آدھا سچ بولنا بھی جھوٹ ہے۔ اور لیڈر کا جھوٹ بولنا ، اس لیڈر کا کہ جسے جدید دنیا میں ووٹ دینا اس کی بیعت کرنے کے مترادف ہو ، اور اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنا اور حق حکمرانی دینا مگر اسے جو لاٹھیاں بانٹتا پھرتا ہے عاقبت نااندیشوں میں کہ ، یہ لو لاٹھی اور ڈھونڈو بھینسیں ، وہ بھی کہ جنہوں نے مجھے ووٹ دیئے اور وہ بھی جنہوں نے ووٹ نہیں دئیے۔ واہ کیا کمال ہے اور کیا جمال ہے قیادت کا۔ سوا سمارٹ!
ٹرمپ حکومت کے جانے کے بعد جوبائیڈن نے جس تغیر کو سب سے پہلے استقامت بخشی وہ یہ کہ ، میڈیا کی آزادی رائے کو تلف اور ان کی جاسوسی کرنا بند کروا دی۔ لا ڈیپارٹمنٹ کی ابتدائی حیل و حجت کو امریکی صدر جوبائیڈن نے سخت ناپسند کیا اور گارنٹی کیا آزادی کا مطلب آزادی ہی۔ ٹرمپ نے سیکرٹ کے نام پر امریکی ڈیبیٹ روایت کا گلا گھونٹنا چاہا، وہ ڈیبیٹ کہ جس نے مغرب کو ڈیجیٹل اور ویکسینیٹڈ کیا۔ وہ تمحیص کہ جس نے یورپ کو ڈارک پیریڈ سے نکال کر اجالوں میں لاکھڑا کیا۔ مغرب سے بحث ، باہمی احتساب اور حاکمانہ اوپن سیکرٹ چھین لیں، ان کی معیشت اور معاشرت ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جائے گی اور ان کی عظمت کا پہاڑ ریزہ ریزہ ملے گا۔ جب برطانیہ ہم پر حاکم تھا وہ برطانیہ پر طرز حکومت ایسی رکھتا جیسے سورہ عصر مسلمانوں کیلئے پسند کرتی ہے، اور برصغیر پاک و ہند میں اس نے اپنے بندوں کو لاٹھیاں تھما رکھیں تھیں۔ جہاں جہاں برطانوی راج رہا وہاں وہاں کاشتکار و غیر کاشتکار کا بیج بویا اور برادری ازم کا پودا پروان چڑھایا تاکہ قوم منقسم رہے۔ پھر ہر اس بازو نے جس کی قوت بھینس کے دودھ کے سبب ہوئی، اسی بھینس کو لاٹھی دکھائی یا اس پر برسائی۔ کیا اسلام نے یہ تصور دیا۔ مجھے ہنسی آتی ہے اس مولوی پر جو لاٹھی کی بنیاد سیکولرزم، سوشلزم اور کیمونزم کو برا کہتا ہے اور اس مولوی کے صدقے جو ایمان کی استقامت کے تناظر میں سیکولرزم، سوشلزم اور کیمونزم کو بھیانک کہتا ہے۔
گلوبل ولیج بننے کے بعد جدت نے ہمارے ایسے قدم چومے کہ ترقی کرتے کرتے ہماری لاٹھیاں بھی ڈیجیٹل ہوگئیں۔ پہلے مینوئل لاٹھی سے ہانکا جاتا اب ڈیجیٹل لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے ہماری ترقی کا افسانہ بس یہاں تک ہی پہنچا ہے کہ بھینسوں کے ہانکنے کیلئے ہم نے ایوانوں، اداروں، میڈیا سنٹرز اور کوچہ و بازار میں پال پال کر لاٹھیوں کو ڈیجیٹل کرلیا ہے ایسی باکمال لاٹھی سے پرفیکٹ کام ملتا ہے بےشک بھینس کھلی ہو کہ بندھی۔اللہ بھلا کرے ہمارے قائدین کا ایوانوں سے دھڑا دھڑا ’’عوامی حق‘‘ میں فیصلے آرہے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بغیر پروٹوکولز سے میڈیا پر قدغن کا فیصلہ تو فٹافٹ آجاتا ہے جس میں میڈیا کی زباں بندی کا معاملہ ہو مگر وہ صدا جو اسی ایوان سے اٹھائی گئی اور معاملہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے عباسیہ کیمپس کی تالا بندی کا ہو اور لاٹھی بیوروکریسی یا سیاستدانوں کے ہاتھ میں، اس پر کوئی قانون سازی یا کوئی آرڈیننس نہیں ہوتا۔ واہ اسپیکر پنجاب اسمبلی واہ! کیجئے سر، جو جو مزاج یار میں آئے، بسم ﷲ کیجئے۔
جدتوں، ترقیوں اور تبدیلیوں کے اس موسم میں جو جو اسمارٹ لاٹھی ہم نے ناتجربہ کار وزراء ، بدمست بیوروکریسی اور کوتاہ اندیش وائس چانسلروں کے ہاتھ میں دیکھی ہے ہمیں ملک و ملت کی’’ترقی‘‘کا یقین ہونے چلا ہے!تو لاٹھی اور عشق اکٹھے چل سکتے ہیں کیا؟