• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریکِ انصاف کی حکومت کے تین سال پورے ہو چکے ہیں لیکن عام آدمی کے حالات دن بدن خراب تر ہو رہے ہیں۔ پٹرولیم، ایل پی جی کے بعد اب بجلی کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافہ انتہائی تشویش ناک اور لمحۂ فکریہ ہے۔ حیرت یہ ہے کہ چینی کی قیمت ایک سو دس روپے فی کلو ہو چکی ہے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ معیشت تباہ حال، عوام بے روزگار ہورہے ہیں۔ملک میں غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ 22کروڑ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جائے۔ پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کرنے والوں نے پراپرٹی پر 35فیصد تک ٹیکس لگا کر لوگوں سے چھت چھیننے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے باعث پہلے ہی غریب عوام کے لئے اپنا گھربنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس پر مستزاد حکومتی اقدامات نے عوام کے لئے پرسکون زندگی کا حصول بھی ناممکن بنادیا ہے۔ غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بھی عوام کاجینا محال کر کے رکھ دیا ہے۔صنعتیں بند اور عوام بے روز گار ہو رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ کے سابق دور حکومت میں لوڈشیڈنگ کاخاتمہ ہو گیا تھا اور اب پی ٹی آئی کی حکومت میں بدترین بجلی کے بحران کا عوام کو کیوں سامنا کرنا پڑا؟ ہمارے اربابِ اقتدار نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا؟تحریکِ انصاف کے دور حکومت میں گردشی قرضہ 1200سے بڑھ کر 2600ارب روپے ہو چکا ہے۔ بجلی کا ٹیر ف بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔ دو سال میں بجلی کی قیمتوں میں دو سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔حکومت مہنگائی،غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پسے ہوئے بدحال عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ نہ لادے بلکہ مہنگائی کا خاتمہ کرکے غریب عوام کو ریلیف فراہم کیا جانا چاہئے۔ ٹیکس نا دہندگان کو گزشتہ3برس میں ایک کروڑ 27لاکھ نوٹسز جاری کیے گئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 6لاکھ 83ہزارافرد ایسے ہیں جو 1447ارب روپے کے ٹیکس نادہندہ ہیں، ایسی صورتحال میں حکمرانوں کے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کے دعوے محض قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ حکومت ملکی ریوینو میں اضافہ کرنے کے لئے اپنی ایکسپورٹ بڑھائے۔زراعت جو کہ ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس کو فرو غ دیا جائے۔ اشیائے خورو نوش کی قیمتیں کم کی جائیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ قوم کے ساتھ جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے والوں کا محاسبہ کیا جائے، اگر ٹیکس وصول کرنا ہی ہے تو بڑے صنعت کاروں، شوگر مل مالکان اور فیکٹری اونرز جو ہر سال اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں ان سے ٹیکس وصولی کے لئے حکومت عملی اقدامات کرے اورمحض زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیا جائے۔غریب عوام اور چھوٹے تاجروں پر نا جائز اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر ایف بی آر پاکستانی معیشت کو مزید تباہ کرنا چاہتی ہے۔غریب اور متوسط طبقہ کے عوام پہلے ہی سترہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ یہ عجیب قانون ہے کہ کروڑ پتی اور مال دار افراد سے بھی سترہ فیصد سیلز ٹیکس لیا جاتا ہے اوراتنا ہی سیلز ٹیکس ایک غریب آدمی کو بھی دینا پڑتا ہے۔ سیلز ٹیکس غریبوں کے لئے ظالمانہ ٹیکس ہے، اسے صرف صاحبِ ثروت طبقہ سے ہی وصول کرنا چاہئےبلکہ اس طبقہ سے جتناٹیکس ان کا بنتا ہے، وہ بھی لے لیا جائے توملکی حالات بہتر ہو جائیں۔غریب عوام کو بھی انہی ٹیکسوں کی آمدن سے ریلیف دیا جانا چاہئے۔ مہنگائی ختم ہونے اور روز گار کے موقع ملنے سے غریب اور متوسط طبقے کا معیا رِ زندگی بلند ہو گا، بد قسمتی سے تحریکِ انصاف کی حکومت اس حوالے سے مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ مافیاز نے حکومت کو گھیرےمیں لے رکھا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج ملک و قوم مسائل کی جس دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں، ان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ہمیں مہنگائی، بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل درپیش ہیں۔ان حالات میں اگر ہمارے حکمران سنجیدہ ہو جائیں تو ملکی حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔گوادر کی ترقی پاکستان اور بلوچستان کی ترقی ہے۔ گوادر، بلوچستان سمیت جنوبی پنجاب اور دیگر پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے کے لئے ضروری ہے کہ وسائل کونچلی سطح تک منتقل کیا جائے اور ان پسماندہ علاقوں کو بھی قومی دھارے میں لایا جانا چاہئے۔ پاکستان قدرتی وسائل اور سیاحت کے حوالے سے دنیا میں ثانی نہیں رکھتا۔ ان علاقوں سے محرومیوں کو دور کیا جائے تاکہ عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو۔ سی پیک خطے کی خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس کے ثمرات چاروں صوبوں کو ملنے چاہئیں۔ عوام کی زندگی میں آسودگی آئے گی تو ہی ملک و قوم ترقی کرسکیں گے۔

دنیا تبدیل ہوچکی ہے۔ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نئے اہداف مقرر کرنے ہوں گے اور اپنے روایتی طرزِ سیاست سے باہر نکل کر قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔امریکہ اور بھارت سمیت کچھ غیر ملکی قوتوں کو سی پیک سمیت پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہورہی۔ یہی وجہ ہے کہ فیٹف فورم میں 27میں سے 26شقوں پر عمل کرنے کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا جارہا ہے۔ ایسے لگتاہے کہ فیٹف معاشی سے زیادہ سیاسی مقاصد پرکام کررہا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری کو ہڑپ کر لیا ہے اور وہ جموں و کشمیر اور انڈیا کے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم ڈھا رہا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس کو فیٹف نے کسی گرے یابلیک لسٹ میں شامل نہیں کیا۔ یہ انتقامی رویہ آخر ہمارے ساتھ کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟ حکومت پاکستان کو دوست اسلامی ممالک اور چین کو ساتھ ملا کر اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین